Saturday, December 12, 2020

شیر شاہ سوری

کچھ مسلم حکمران تاریخ کے آسمان پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے' شیر شاہ سوری ان میں سے ایک ہے۔ شیر شاہ ایک نڈر' عالی طرف اور مردم شناس مسلم بادشاہ تھا' رعایا پروری' عدل و انصاف' مساوات اور حسنِ سلوک کی جس نے شاندار مثالیں قائم کیں اور ایسے عظیم کارنامے انجام دیے جنہیں یاد کر کے آج بھی رشک آتا ہے۔ شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ۔ سولہویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی جو کابل سے کلکتہ تک پھیلی ہوئی تھی تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔ اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو انگریزوں کے دورِ حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل سے ہوتا ہوا پہلے لاہور پھر دہلی سے ہو کر بالآخر کلکتہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ اس سڑک کے کناروں پر مسافروں کی سہولتوں کی خاطر جگہ جگہ سرائے بنائے گئے اور سائے کے لیے اسے درختوں سے سجایا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے ان سڑکوں کی دونوں جانب سایہ دار درخت لگوائے اور ان کے پھل مسافروں کے لیے وقف تھے، نیز ان دونوں سڑکوں پر ہر تین کوس پر پختہ سرائے بنوائیں اور ان میں دو باورچی خانے بنوائے' ایک مسلمانوں کے لیے اور ایک ہندوئوں کے لیے اور عام حکم دیا کہ بلاتفریق ہر مسافر کی مہمان نوازی سرکاری خزانے سے کی جائے اور ہر سرائے میں جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر پولیس کا انتظام کیا گیا۔ اسی طرح ہر سرائے کے دروازے پر ایک نقارہ تھا اور بادشاہ کی طرف سے حکم تھا کہ جس وقت ہم کھانا کھانے بیٹھیں' اسی وقت تمام مسافروں کیلئے کھانا لگا دیا جائے اور آگرہ سے بنگال تک تمام نقارے ایک دوسرے کی آواز سن کر بجائے جائیں تاکہ معلوم ہو جائے ہم تنہا ہندوستان کے ایوانِ شاہی سے محظوظ نہیں ہو رہے بلکہ ہمارے ساتھ ہماری پردیسی اور غریب رعایا بھی خدا کی عنایت کردہ نعمتوں میں شریک ہے۔
شیر شاہ سوری کے یوں تو تمام منصوبے عوام کی خیر خواہی اور فلاح کے لئے تھے لیکن مسافروں کی مہمان نوازی کے لئے جو سرائے تعمیر کی گئیں وہ اپنی مثال آپ تھیں۔

انسان کی 9 آرزوئیں

موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱- يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ‏(ﺳﻮﺭة النبأ‏ 40#)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۲- * يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي *
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ‏( ﺍﺧﺮﯼ ‏) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ 
‏( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 ‏)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۳- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۴- يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۵- يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۶- يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۷- يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73‏)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۸- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ﭨﮭﯿﺮﺍﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۹- يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔ 
‏(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯﺑﻌﺪﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ، ﺍسی لئے ﺯﻧﺪﮔﯽ میی ہی اپنے عقائد و عمل کا ﺍﺻﻼﺡ کرناﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎﮰ۔
*آﻣِﻴﻦ ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ

قابل بنیں انگریز نہیں


آپ ترکی اور ترک لوگوں کی " جہالت " کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ آپ کو شاید ہی پورے ترکی میں کوئی ایک ترک ڈاکٹر بھی ایسا نظر آئے جو انگریزی لفظ " پین " (درد) کے معنی جانتا ہو۔
 اگر آپ ترکی نہیں بول سکتے یا آپ کے ساتھ کوئی ترجمان نہیں ہے تو پھر آپکا ترکی گھومنا خاصا مشکل ہے ۔

 آپ چین کی مثال لے لیں ماؤزے تنگ کی " جہالت " کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی۔ جب کبھی کوئی لطیفہ ان کو انگریزی میں سنایا جاتا ان کی آنکھوں کی پتلیوں تک میں کوئی جنبش نہیں ہوتی تھی اور جب کوئی وہی لطیفہ چینی زبان میں سناتا تو قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ وہ ہمیشہ بولتے تھے کہ چینی قوم گونگی نہیں ہے۔

 ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے لیں ، ان کی ماں نے ساری زندگی گھروں میں کام کیا اور باپ نے اسٹیشن پر چائے بیچی وہ حالات کی وجہ سے گھر سے بھاگے دن رات محنت کے بعد گجرات کے وزیر اعلی بنے اور بعد ازاں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ آپ نریندر مودی کی کوئی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو وہ ہندی بولتے نظر آئینگے۔
 ہندوستان کی خود اعتمادی کا یہ حال ہے کہ ان کی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندی میں بات کرتی ہیں۔ صدر ترکی طیب اردوگان پاکستان آئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے ترکی زبان میں خطاب کیا ، پاکستانی قوم ، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو یہ بھی بتا گئے کہ کسی قوم کی ترقی کی علامت اس کی غیرت ہوتی ہے انگریزی نہیں۔ 

 ہم مرعوبیت کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی کرکٹر پاکستان سے باہر اردو میں بات کرلے تو ہم منہ چھپا چھپا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی پرفارمنس کو کرکٹ سے ناپنے کے بجائے انگریزی سے ناپتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس خوبصورتی کا معیار گورا رنگ اور قابلیت کا معیار انگریزی ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا واحد مقصد انگریزی ہوتا ہے۔ 

کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکا اور برطانیہ میں ماں باپ بچوں کو کیوں اسکول میں داخل کرواتے ہونگے ؟ ہماری ذہنی غلامی کا تماشہ دیکھیں ہم نے اسکولز تک کو انگریزی اور اردو میڈیم بنایا ہے ۔ قوم کا غریب اور زوال پذیر طبقہ اردو پڑھے گا جبکہ امیر اور پیسے والا طبقہ انگریزی۔ دنیا کی معلوم دس ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے کسی غیر کی زبان میں ترقی نہیں کی۔ تخلیق ، تحقیق اور جستجو کا تعلق انگریزی سے نہیں ہوتا اور اگر آپ ان چیزوں کا تعلق بھی انگریزی سے جوڑ دینگے تو پھر وہی ہوگا جو اس ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آپ کو پورے ملک میں سوائے دو چار کے کوئی قابل ذکر سائنسدان ، کوئی تحقیق کرنے والا ڈاکٹر اور کچھ نیا ایجاد کرنے والا انجینئیر نہیں ملے گا۔ اس قوم کا نوجوان بھلا کیسے کچھ سوچ سکتا ہے جس کا واحد مقصد اپنی انگریزی درست کر کے اعلی نوکری حاصل کرنا ہو۔ جو لکیر کا فقیر بن چکا ہو۔

 بنا سوچے سمجھے بس رٹے لگائے جائے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہمارے بچوں کو انگریزی آتی نہیں ہے اور اردو مشکل لگتی ہے۔ آپ کسی بھی نوجوان کو راستے میں روکیں اور اس کو انگریزی میں ایک درخواست لکھنے کا بول دیں وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے گا۔ اصل بیڑہ غرق اس موبائل فون کی رومن اردو نے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل تو اردو کے الفاظ تک لکھنا بھول چکی ہے۔ حتی کہ موبائل کمپنیز کے آفیشل میسجز تک رومن اردو میں موصول ہوتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ہے۔

 بھائی ! دنیا میں اور کس زبان کے ساتھ یہ ظلم عظیم ہو رہا ہے کہ اس کے فونٹس کی موجودگی میں آپ کو " رومن " لکھنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ؟ کسی میں دم نہیں ہے کہ واٹس ایپ یا میسج انگریزی مٰیں کرے ساری قوم اردو میں کرتی ہے لیکن " رومن " اردو میں۔ پلے اسٹور سے ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر اردو لکھنے میں کونسی جان جاتی ہے میں ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہمیں لکھنی بھی اردو ہے اور اردو میں بھی نہیں لکھنی ہے۔

 مجھے شاذ و نادر ہی کوئی والدین ایسے ملے ہوں کہ جنھوں نے اپنے بچے کے اخلاق ، کردار ، گفتگو اور تمیز تہذیب پر بات نہ کی ہو سارا وقت اس کی اخلاقی حالت کو روتے رہے اور آخر میں مدعا یہ ٹھہرا کہ آپ کسی طرح اس کی انگریزی ٹھیک کروائیں۔ میں نے اس ملک میں اور اس دنیا میں قابلیت کا کوئی نمونہ انگریزی کی وجہ سے نہیں دیکھا۔ چین ، جاپان ، ترکی ، جرمنی ، فرانس اور اب تیزی سے ابھرتا ہوا بھارت ان میں سے کونسے ملک نے انگریزی کی وجہ سے کامیابی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں ؟

 پاکستان کے سب سے بڑے موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ ، بزنس ٹائیکون ملک ریاض  ان میں سے کس نے انگریزی کی وجہ سے ترقی کی ہے ؟ یا آپ نے کبھی ان کو انگریزی بولتے بھی سنا ؟ اس لیے خدارا خود بھی قابل بننے کی کوشش کیجیے اور بچوں کو بھی قابل بنائیے انگریز نہیں۔

Wednesday, December 9, 2020

کن فیکون

*کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا* ```
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے وہ ڈبیا پکڑی اور لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبیا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاھ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے !!
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ
مانگیں تو سہی!! 
ہم بھی آج کل ہر چھوٹی بڑی باتیں لے کر لوگوں کے سامنے رونا شروع کردیتے ہیں کہ جی فلاں پریشانی ہے بیماری ہی نہیں جاتی یا یہ کہ قرضہ  ہی نہیں اترتا اور بہت ساری پریشانیاں ہیں جو ہم ان  لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں جنہوں نے آگے سے اپنی ہی پریشانیاں گنوانی ہوتی ہیں  

اپنی پریشانیاں اس سے شئر کریں جو کُن فیکون ہے !!``

بہترین دوست

"آپ اگر کبھی کولڈ ڈرنک کو خود کھولنے کا مشاہدہ کریں تو غور کیجئے گا......
آپ کے کولڈ ڈرنک کو کھولتے ہی اس میں موجود 80٪ گیس ایک دم پریشر کے ساتھ نکلتی ہے....
اور پھر کچھ ہی دیر اگر کولڈ ڈرنک رکھی رہے تو آہستہ آہستہ باقی بھی نکل جاتی ہے.....

ہماری زندگی میں بھی بہترین دوست وہ ہوتا ہے، جس کے زندگی میں داخل ہوتے ہی ہماری زندگی سے 80٪ فضولیات، منفی وسوسے اور بے جا خیال ایک دم سے نکل جاتے ہیں.....
اور باقی 20 ٪ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ نکل جاتے ہیں......
واصف علی واصف کے بقول...
" اگر آپ کی زندگی میں دوست ہیں، مگر آپ کی زندگی میں کوئی بدلاو نہیں آ رہا تو سمجھ لیں آپ دوستوں سے محروم ہیں "
                         

Tuesday, December 8, 2020

آنکھیں کھول دینے والی گفتگو

ارے بیٹا یہ کیا؟ شرم نہیں آتی، بغیر پوچھے ایک اجنبی کو اپنے گھر لے آئے۔۔ دروازے کے ساتھ گھنٹی کا بٹن ہے، اسے دبا کر اطلاع کردیتے، تاکہ تمہاری بہنیں اور ماں سائیڈ پر ہوجاتیں۔

بیٹا :- ارے بابا یہ خیال آپ کو تب نہیں آتا، جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں اور میری بہنوں اور ماں کی موجودگی میں ایک نامحرم شخص سامنے آجاتا ہے، اس کی وقت تو کبھی آپ نے بے پردگی کا نہیں کہا۔

باپ :- وہ ٹی وی ہوتا ہے، وہ شخص تمہاری ماں بہن کو دیکھ یا سن نہیں رہا ہوتا، اس لیے اپنی بحث اپنے پاس رکھو اور جلدی سے اس شخص کو باہر نکالو۔

بیٹا :- بابا آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ یہ شخص بھی بولنے اور سننے سے قاصر ہے کیونکہ یہ پیدئشی بہرا اور نابینا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس کا ہونا نہ ہونا تقریبا برابر ہی ہے۔

باپ :- لیکن تمہاری بہنیں اندھی نہیں ہیں، اس لیے جلدی سے اس اجنبی کو باہر چھوڑ کر آجاؤ۔

بیٹا :- بس میں اسے صرف اسی لیے آج ساتھ لایا تھا تاکہ آپ کو یہ سمجھا سکوں کہ ٹی وی پر آنے والے مرد اور عورتوں کو دیکھنا بھی گناہ ہے، جس طرح آپ کو ابھی غیرت آرہی ہے، اسی طرح اس وقت بھی غیرت آنی چاہیے جب ٹی وی پر کوئی نامحرم آجائے اور میری بہنیں اسے دیکھ رہی ہوں۔
ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا بھی بیٹھی ہوئی تھیں، اتنے میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ )نابینا صحابی( تشریف لائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دونوں اس سے پردہ کرو۔ ہم نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو نابینا ہیں یہ نہ ہم کو دیکھتے ہیں نہ ہی پہچانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اس کو نہیں دیکھتی؟
اب بابا آپ خود ہی انصاف کریں، وہ ٹی وی والے اگر نہیں دیکھتے تو کیا ہماری بہنوں کو ان نا محرموں کو دیکھنا چاہیے یا نہیں؟

لیکن شیطان ہمیں بہلاتا پھسلاتا ہے اور اس دھوکے میں رکھتا ہے کہ سب ٹھیک ہے، ہر کسی کے گھر میں بھی تو ٹی وی ہے تو کیا سب غلط ہیں؟؟
باپ :- بس کرو، تم لوگوں کی فرمائش تھی کہ گھر پر ٹی وی ہو، تمہیں پڑوسیوں کے گھر جانے سے روکنے کی غرض سے ہی تو میں ٹی وی گھر لایا تھا۔
بیٹا :- بابا میں اس بات کو نہیں مانتا، جس کسی سے ٹی وی رکھنے کی وجہ پوچھو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ بچے دوسروں کے گھر جاتے تھے اس لیے ٹی وی لایا، آپ کو معلوم ہے کہ بڑے بھائی باہر سگریٹ پیتے ہیں لیکن پھر بھی کبھی آپ نے ان کیلئے گھر سگریٹ کی ڈبیا نہیں رکھی کہ بیٹا باہر کیوں پیتے ہو گھر پیا کرو، بلکہ الٹا آپ انہیں منع کرتے ہیں کہ باہر نہ پیا کرو۔

باپ :- ہر کوئی جانتا ہے کہ تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس لیے کوئی باپ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا سگریٹ پئیے، لیکن اس سب کا ٹی وی سے کیا تعلق ہے؟

بیٹا :- بابا سگریٹ سے جسمانی صحت خراب ہوتی ہے جبکہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں گانوں سے اخلاقی اور روحانی صحت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی کل قیامت کے دن وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسا یہ دو انگلیاں )شہادت والی اور اس کے ساتھ والی انگلی سے اشارہ کرکے دکھایا( ساتھ ساتھ ہیں۔
ایک جگہ ارشاد ہے کہ ہر شخص اپنے کنبے کا والی وارث ہے اور اس سے اس کے کنبے کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی، تو ظاہر ہوا کہ کسی اجتماعی گناہ کا وبال والی وارث پر ہی ہوگا، جیسے اولاد کی تربیت میں کوتاہی کا وبال یا اولاد کے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں کل قیامت کو ماں باپ جواب داہ ہوں گے۔
جیسے نیک اولاد جنت میں جانے کا ذریعہ بنتی ہے ٹھیک اسی طرح بری اولاد جہنم میں لے جانے کا سبب بھی ہوگی۔

*حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا* فرماتی ہیں کہ *نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ اسے جہنم میں جانے کا حکم دیا گیا اس شخص کی نیک بچیاں اس سے چمٹ گئیں اور رونے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ اے اللہ ہمارے باپ نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا اور ہماری تربیت میں بہت محنت اٹھائی، تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر رحم فرما کر بخش دیا۔

بابا کہیں یہ نہ ہو کہ کل قیامت کو آپ کو جنت جانے کا حکم ملے اور آپ کی بیٹیاں بھی آپ کے پاؤں سے چمٹ جائیں کہ اے اللہ تو نے ہمیں نیک اور معصوم پیدا کیا تھا، پھر ہمارے باپ نے ہمیں دنیا کے ہر علم اور آسائش سے ہمیں آراستہ کیا، اعلیٰ تعلیم دلائی، دنیا کی ہر آسائش کا بندوبست کیا لیکن کبھی نماز کی تلقین نہیں کی، کبھی قرآن سکھانے کا اچھا بندوبست نہیں کیا، کبھی پردے کا نہ کہا۔۔۔

کہیں ان کی التجاء کی بدولت آپ کو جنت کی بجائے جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔

باپ :- بس بیٹا بس، میں جان گیا، آج تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، واقعی اپنی اولاد کی اچھی تربیت میری ہی ذمہ داری ہے جس میں میں نے آج تک کوتاہی برتی، اللہ مجھے معاف کرے۔

بیٹا :- اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بات آپ کو سمجھ آگئی، اور اولاد کی نیک تربیت کا صلہ صدقہ جاریہ کی صورت میں مل جایا کرتا ہے۔ مطلب جب بھی اولاد کوئی نیکی کرتی ہے اس کا اجر اور صلہ اس کے ماں باپ کو بھی پورے کا پورا ملتا ہے۔
باپ :- ارے ہم تمہارے دوست کو تو بھول ہی گئے، انہیں کوئی چائے وائے پلاؤ۔۔۔

الا بذکر اللّٰه تطمئن القلوب

اکثر  لوگ  شکایت  کرتے  ہیں کہ وہ اضطراب بے چینی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور اپنی  زندگی کے بارے  میں  سوچ  کر  انہیں بہت گھٹن محسوس ہوتی ھے
 
 *الله سبحان وتعالی*  نے قرآن میں ایک اصول بتایا ھے یقینا الله کے ذکر  سے  ہی  دلوں  کو  اطمینان ملتا ھے

اب سوال یہ کہ وہ ذکر ھے کیا ؟ 
 *سبحان الله   الحمد لله  الله اکبر* 
 *لا الہ الا الله* _اس طرح کے اذکار ہیں جو ہمیں ہر وقت پڑھتے رہنا چاہیے __ کیونکہ ایک  مومن کی ذبان ہمیشہ  الله سبحان  وتعالیٰ کے ذکر سے تر رہتی ھے

اپنی  نمازوں   کی  Quality  کو بھی بہتر کریں _ قرآن مجید جو کہ سب  سے بڑا ذکر کا ذریعہ ھے اس کو پڑھنا  اس پر  غور  وفکر کرنا

 شکر گزاری کی عادت  اپنے اندر پیدا کیجئے اور خود  کو  گناہوں سے دور کرنا

یہی وہ ذکر ہیں ____ جو  ہماری زندگیوں سے  بےچینی  اضطراب اور  ذہنی  دباؤ  کو   دور  کر  کے اطمینان   کا    باعث   بنتے   ہیں

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Sunday, December 6, 2020

حقیقی کامیابی

4 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ پیشاب کپڑوں میں نہ نکلے

8 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو 

12 سال کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دوست احباب ہوں

18 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گاڑی ڈرائیو کرنی آتی ہو

23 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھی ڈگری حاصل کر لی ہو

25 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی اچھی نوکری مل گئی ہو

30 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بیوی ،بچے ہوں

35 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ مال ودولت پاس ہو

45 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ دیکھنے میں خود بخود جوان لگے

50 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ بچے تمہاری اچھی تربیت کا صلہ دیں

55 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں بہار قائم رہے

60 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ اچھے طریقے سے گاڑی ڈرائیو کر سکيں

65 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کوئی مرض نہ لگے

70 برس کی عمر میں ..... کامیابی یہ ہے کہ کسی کی محتاجگی محسوس نہ ہو

75 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ تمہارا حلقہ احباب ہو

80 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ گھر جانے کا رستہ آتا ہو

85 برس کی عمر میں .... کامیابی یہ ہے کہ کپڑوں میں پیشاب نہ نکل جائے
جہاں سے انسان چلا اب تک وہیں پہ پہنچ گیا

​وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡهُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۸﴾ (يٰس-68)​
​اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو اُلٹ دیتے ہیں کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی۔​

ایسی ہی ہے یہ دنیا- لہٰذا دنیا کے پیچھے بھاگنے کے بجائے آپ آخرت  کی فکر کریں ، کیونکہ آخرت کی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے... 

Friday, December 4, 2020

غرض کا پیالہ

بادشاہ نے اپنے وزیر کو 3 شرطوں کے عوض اپنی آدھی سلطنت دے دی،پڑھیے سبق آموز واقعہ
بادشاہ کا موڈ کافی اچھا تھا' وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا "تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے" وزیر شرما گیا' اس نے منہ نیچے کر لیا' بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "تم گھبراﺅ مت' بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ" وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا "حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں' میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا" وزیر خاموش ہو گیا' بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا "میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟" وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا "بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے' میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں" بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا' بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا' دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا' وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا' بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا "تمہارے پاس تیس دن ہیں' تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں' تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا" وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی' بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا "میرے تین سوال لکھ لو" وزیر نے لکھنا شروع کر دیا' بادشاہ نے کہا "انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟" وہ رکا اور بولا "دوسرا سوال' انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے" وہ رکا اور پھر بولا "تیسرا سوال' انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے" بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا "تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب" . وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی'اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور' ادیب' مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے' ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن  وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے' وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا' وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا' وہ مارا مارا پھرتا رہا' شہر شہر' گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا' شاہی لباس پھٹ گیا' پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی'جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے' یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا' اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا' وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے' کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا' وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا' آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی' وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا' فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا' ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا' فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی' قہقہہ لگایا اور بولا "جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں' آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں"وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا "آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا' میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے" فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے' مسکرایا' اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا "یہ دیکھئے' آپ کو بات سمجھ آ جائے گی" وزیر نے جھک کر دیکھا' بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی' یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا' فقیر نے کہا "جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا' 

مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ ان شاء اللہ عزوجل

میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی'نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے" فقیر نے اس کےاور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا' وزیر نے دکھی دل سے پوچھا "کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے" فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا "میرا کیس آپ سے مختلف تھا' میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے' میں نے بادشاہ کو جواب بتائے' آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا' بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا' میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں" وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا' جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا "کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں" فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا "میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی" وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا' اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی'فقیر بولا "دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے' انسان کوئی بھی ہو' کچھ بھی ہو' وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا" وہ رکا اور بولا "انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے' ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے" فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے' وزیر سرشار ہو گیا' اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی' فقیر نے قہقہہ لگایا' کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا' وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا "میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے" وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا .اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا' وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا "اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں' تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ' فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے" وزیر مخمصے میں پھنس گیا' ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا' وہ سوچتا رہا' سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی' وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا' فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا "میرے بچے' انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے' یہ اسے کتے کا جوٹھا تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا' میں جان گیا تھا' میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا' میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا' میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے' زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو' تمہاری زندگی اچھی گزرے گی" وزیر خجالت' شرمندگی اور خود ترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا' وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا' اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا' وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا' اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی' وہ گھوڑے سے گرا' لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.ہمیں کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے' ہمیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے' ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے' ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ' مجھے یقین ہے ہم لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہوتے چلے جائیں گے .اور زندگی کی اصل کو سمجھ جائیں گے۔