Friday, October 9, 2020

رزق کے دروازے

‏اللہ تعالیٰ نے رزق کے 16 دروازے مقرر کئے ہیں.اور اس کی چابیاں بھی بنائی ہیں۔ جس نے یہ چابیاں حاصل کر لیں وہ کبھی تنگدست نہیں رہے گا۔
۔
* پہلا دروازہ نماز ہے۔ جو لوگ نماز نہیں ‏پڑھتے ان کے رزق سے برکت اٹھا دی جاتی ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان رہتے ہیں۔

* دوسرا دروازہ استغفار ہے۔ جو انسان زیادہ سے زیادہ استغفار کرتا ہے توبہ کرتا ہے اس کے رزق میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اللہ ‏ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے کبھی اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔

* تیسرا دروازہ صدقہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے کر رہے گا، انسان جتنا دوسروں پر خرچ کرے گا اللہ اسے دس گنا بڑھا کر دے گا

* چوتھا ‏دروازہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے دور رہتے ہیں اللہ اس کیلئے آسمان سے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔

* پانچواں دروازہ کثرتِ نفلی عبادت ہے۔ جو لوگ زیادہ سے زیادہ نفلی عبادت کرتے ہیں اللہ ان پر تنگدستی کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے اگر تو عبادت میں ‏کثرت نہیں کرے گا تو میں تجھے دنیا کے کاموں میں الجھا دوں گا، لوگ سنتوں اور فرض پر ہی توجہ دیتے ہیں نفل چھوڑ دیتے ہیں جس سے رزق میں تنگی ہوتی ہے

٭ چھٹا دروازہ حج اور عمرہ کی کثرت کرنا ، حدیث میں آتا ہے حج اور عمرہ گناہوں اور تنگدستی کو اس طرح دور کرتے ہیں جس ‏طرح آگ کی بھٹی سونا چاندی کی میل دور کر دیتی ہے

٭ ساتواں دروازہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا۔ ایسے رشتہ داروں سے بھی ملتے رہنا جو آپ سے قطع تعلق ہوں۔

٭ آٹھواں دروازہ کمزوروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ہے۔ غریبوں کے غم بانٹنا، مشکل میں کام آنا اللہ کو بہت پسند ہے

٭ نوواں دروازہ اللہ پر توکل ہے۔ جو شخص یہ یقین رکھے کہ اللہ دے گا تو اسے اللہ ضرور دے گا اور جو شک کرے گا وہ پریشان ہی رہے گا. 
‏٭دسواں دروازہ شکر ادا کرنا ہے۔ انسان جتنا شکر ادا کرے گا اللہ رزق کے دروازے کھولتا چلا جائے گا

٭ گیارہواں دروازہ ہے گھر میں مسکرا کر داخل ہونا ،، مسکرا کر داخل ہونا سنت بھی ہے حدیث میں آتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ رزق بڑھا ‏دوں گا جو شخص گھر میں داخل ہو اور مسکرا کر سلام کرے

٭بارہواں دروازہ ماں باپ کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ ایسے شخص پر کبھی رزق تنگ نہیں ہوتا

٭ تیرہواں دروازہ ہر وقت باوضو رہنا ہے۔ ‏جو شخص ہر وقت نیک نیتی کیساتھ باوضو رہے تو اس کے رزق میں کمی نہیں ہوتی

٭چودہواں دروازہ چاشت کی نماز پڑھنا ہے جس سے رزق میں برکت پڑھتی ہے۔ حدیث میں ہے چاشت کی نماز رزق کو کھینچتی ہے اور تندگستی کو دور بھگاتی ہے

٭‏پندرہواں دروازہ ہے روزانہ سورہ واقعہ پڑھنا ۔۔ اس سے رزق بہت بڑھتا ہے

 سولواں دروازہ ہے اللہ سے دعا مانگنا۔ جو شخص جتنا صدق دل سے اللہ سے مانگتا ہے اللہ اس کو بہت دیتا ہے

اللّه ہمیں ان سب پے اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق آتا فرمائے آمین

دل کی پاکیزگی

حضرت شاہ شمس تبریزی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں قرآن مجید کو پڑھنے والا ہر شخص قرآن مجید کو اپنے فہم و ادراک کی گہرائی کے مطابق ہی سمجھ پاتا ہے قرآن مجید کی فہم کے چار درجات ہیں
پہلا درجہ ظاہری معانی ہیں اور زیادہ تر اکثریت اسی پر قناعت کئے ہوئے ہے دوسرا درجہ باطنی معانی کا ہے
تیسرا درجہ ان باطنی معنوں کا بطن ہے اور چوتھا درجہ اس قدر عمیق معنوں کا حامل ہے کہ زبان ان کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ ناقابلِ بیان ہیں
علماء و فقہاء جو شریعت کے احکامات پر غوروخوض کرتے رہتے ہیں یہ پہلے درجے پر ہیں دوسرا درجہ صوفیہ کا ہے تیسرا درجہ اولیاء کا ہے چوتھا درجہ صرف انبیاء مرسلین اور ان کے ربانی وارثین کا ہے پس تم کسی انسان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی نوعیت کو اپنے قیاس سے جاننے کی فکر نہ کیا کرو۔ ہر شخص کا اپنا اپنا راستہ ہے اور اظہارِ بندگی کی ایک اپنی نوعیت ہے اللہ  بھی ہمارے الفاظ و اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے یہ مذہبی رسوم و رواج بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں اصل چیز تو دل کی پاکیزگی ہے.

سورۃ الکوثر

سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے، سوچا آپکے ساتھ شئیر کرلوں
سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملے الفاظ 10ہیں۔
قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے
لیکن جب
- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔
- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔
- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔
- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔
- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔
- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔
- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔
سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑہو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے
اللہ کی شان کے یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔
آمین

سچ اور جھٹ

خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں  جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے  کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔
وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا:  "اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای۔؟ 
میں نے کہا: "سوایا ہے چاچی" لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔
حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔ 
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے: "خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے "
مَیں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: "بھاٸی جان لنڈے چوں لیا اے" لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجاٸے ہسنے لگ گیا تھا۔۔۔

سچ ہے یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔Big Message 👉

زندگی کا اصل مقصد؟


✍🏻 دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو  1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تھا۔
پھر جب موبائلز میں sms یعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3G یعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔
اور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور مویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4G یعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیا۔۔۔
اور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5G کی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔  آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا  جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔ آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں ۔۔۔ الغرض موبائل پر ایک وقت میں مثلا 10 کام بھی کر رہے ہوں۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی کوئی کال آئے گی موبائل فوراً سے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں۔ اور وہ اپنے اصل اور  بنیادی کام کی خاطر باقی سارے کام ایکدم روک لیتا ہے۔
اور ایک انسان جسے اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اور ساری کائنات کو اس کی خدمت کے لیے سجا دیا، وہ اللہ کی کال پر دن میں کتنی بار اپنے کام روک کر مسجد جاتا ہے؟مسجد جانا تو درکنار اب اللہ کی کال یعنی اذان پر ہم اپنی گفتگو بھی روکنا مناسب نہیں سمجھتے۔ عبادت ہر انسان اور نماز ہر مسلمان کی زندگی کا بنیادی جز ہے جس کی موت تک کسی صورت میں بھی معافی نہیں۔ کاش ہم  موبائل سے اتنا سا ہی سبق سیکھ لیں جسے ہم نے خود ایجاد کیا اور ایک لمحہ بھی خود سے جدا نہیں کرتے کہ دنیا کے سب ہی کام کرو مگر اپنی پیدائش کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت کبھی نہ بھولو۔ اذان ہوتے ہی سب کچھ روک کر مسجد چلو اور اللہ کی کال پر لبیک کہو۔"

اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے....!!!!

لوڈو اور نصیحت


کبھی لوڈو دیکھی ہے غور کرنا اس پر کیا نصحیت ہے۔
اس میں جب تک گوٹی گھر میں رہتی ہے تب تک محفوظ رہتی ہے ۔۔
گھر سے باہر نکلتے ہی اُس گوٹی کا ہر گلی ہر چوراہے پر کھلاڑیوں اور شکاریوں سے سامنا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
شاطرانہ چالوں سے واسطہ پڑتا ہے----
 کہاں کہاں سے اور کس کس سے بچنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
جگہ جگہ کمیں گاہیں اور گھات میں دشمن ہوتے ہیں----
کھیل سکو تو کھیل لو --
اور ہاں پھر مخالف سے شکوہ بھی نہیں بنتا کھیل تو پھر کھیل ہوتا ہے ----
                         
گوٹی کی جگہ اگر عورت کو فرض کر کے دیکھیں تو!!!!
عورت کی زندگی بھی گوٹی کی زندگی سے کچھ مختلف نہیں ہوتی----
عورت بھی گھر کی چار دیوری کے باہر غیر محفوظ اور بے سہارا ہوتی ہے----
فرق صرف یہ ہے کہ گوٹی جب شکار بن جائے تو دوبارہ شروعات کر سکتی ہے----
لیکن اگر عورت خدانخواسطہ
شکار بن جائے تو دوبارہ شروع کرنے کے لئے اُس کے پاس کچھ نہیں بچتا---- 
 Note!!!!
سب سے ضروری بات جن کی اپنی گوٹی کسی اسٹاپ سے باہر ہو ان کو دوسروں کی گوٹی پر نظر نہیں رکھے اُمید ہے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہونگے-

A Silent Msg 4 Everyone 💯😊
Plzzzzz Think About it 🙂

اخلاق کا بلند ترین درجہ

ایک غریب دیہاتی، بارگاہ رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  میں، انگوروں سے بھری ایک رکابی کا تحفہ پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  نے رکابی لی، اور انگور کھانے شروع کیئے۔
پہلا دانہ تناول فرمایا اور مُسکرائے۔
اُس کے بعد دوسرا دانہ کھایا اور پھر مُسکرائے۔
اور وہ بیچارہ غریب دیہاتی، آپ کو مسکراتا دیکھ دیکھ کر خوشی سے نہال۔۔۔
صحابہ سارے منتظر، خلاف عادت کام جو ہو رہا ہے کہ ہدیہ آیا ہے اور انہیں حصہ نہیں مل رہا۔۔۔
رسول علیہ السلام، انگوروں کا ایک ایک دانہ کر کے کھا رہے ہیں اور مسکراتے جا رہے ہیں۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔۔۔۔ آپ نے انگوروں سے بھری پوری رکابی ختم کر دی۔۔
اور آج صحابہ سارے متعجب!
غریب دیہاتی کی تو عید ہو گئی تھی۔۔۔۔ 
خوشی سے دیوانہ۔۔۔ خالی رکابی لیئے واپس چلا گیا۔ 
صحابہ نہ رہ سکے۔۔۔۔ ایک نے پوچھ ہی لیا، 
یا رسول اللہ؛ آج تو آپ نے ہمیں شامل ہی نہیں کیا؟
رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  مسکرائے اور فرمایا؛  
تم  لوگوں نے دیکھی تھی اُس غریب کی خوشی؟
 میں نے جب انگور چکھے ۔۔۔۔ تو پتہ چلا کہ کھٹے ہیں۔ 
مجھے لگا کہ اگر تمہارے ساتھ یہ تقسیم کرتا ہوں تو ہو سکتا ہے تم میں سے کسی سے  کچھ ایسی بات  یا علامت ظاہر ہو جائے، جو اس غریب کی خوشی کو خراب کر کے رکھ دے۔ 
(اور  بیشک آپ اخلاق کے  بلند ترین درجہ پر ہیں)❤️

Wednesday, September 30, 2020

خدمت گزاری

ایک اونٹ جنگل سے گزر رہا تھا اور اسکی مہار زمین پر گِھسٹ رہی تھی۔ ایک چوہے نے اسے دیکھا تو دل میں کہا کہ اسکو یوں کھلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسکی مہار تھام لینی چاہیے تاکہ یہ شِتر بے مہار نہ کہلاۓ۔ پھر اس نے دوڑ کر اسکی مہار منہ میں لے لی اور آگے آگے روانہ ہو پڑا۔ اونٹ نے بھی اس سے مذاق کیا اور بے تکلف ہو کر پیچھے پیچھے چل پڑا۔
کچھ دور چل کر اونٹ نے پوچھا ، اےے میرے رہبر! تو اس قدر ڈر کیوں رہا ہے؟ چوہے نے شرمندگی سے کہا، بھائی یہ پانی دیکھ کر میرا دِل ڈر گیا ہے۔ اونٹ نے کہا تو نہ ڈر میں ابھی دیکھ کر بتاتا ہوں کہ پانی کتنا گہرا ہے۔ اور پھر بولا کہ آجا پانی تھوڑا ہے، دیکھ لے میرے زانوں تک نہیں ڈوبے تو کیسے ڈوب سکتا ہے۔ چوہے نے کہا واہ بھئ واہ، یعنی تم مجھے غرق کرنا چاہتے ہو، جو پانی تمہارے زانو تک گہرا ہے وہ میرے سر سے سو گز اونچا ہو گا۔
یہ سن کر اونٹ نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولا کہ کیا تم اسی برتے پر میرے پیشوا بنے تھے؟ آئندہ دعویٰ ہمسری ٖصرف چوہوں کے ساتھ ہی کرنا کسی اونٹ کے منہ مت لگنا۔ چوہا بھی سٹپٹا گیا اور بولا میری توبہ آئندہ ایسی جرات نہیں کرونگا۔ اب خدا کے لئے مجھے پار اتار دے۔ اونٹ کو رحم آ گیا اور بولا کہ آ میری پیٹھ پر بیٹھ جا تیرے جیسے لاکھوں چوہوں کو پار اتار سکتا ہوں۔
مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ کی اس حکایت کا مطلب صاف ہے کہ جب تم میں بادشاہ یا رہنما یا مُرشد بننے کی صلاحیت نہ ہو تو رعیت بن کر گزارا کرو اور خدمت گزاری سے عزت حاصل کرو۔

Tuesday, September 29, 2020

واصف خیال

واصف علی واصف رح فرماتے ہیں
"اسلام غریبی سے نہیں ڈرتا ہے، بلکہ امیری سے ڈرتا ہے، یہ تمہاری بے ایمانیاں ہیں جو غریبی سے ڈرتی ہیں، اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے تمہارے گمراہ ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو تمہیں سونے اور چاندی کے مکانات دے دیتا، لیکن تم گمراہ ہو جاو گے حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میری امت جو ہے یہ شرک تو نہیں کرے گی لیکن یہ دولت کے اندر اتنی گم ہو جاے گی کہ اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، اونٹوں کی مہار لے کر چلنے والے، اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے ۔۔۔۔ تو پھر مشکل وقت آ جائے گا ۔۔۔۔". 
(ذکر حبیب۔ ﷺ ۔۔۔۔۔۔۔ صفحہ 190 )

مرنے کے پانچ بڑے پَچھتاوے

" برونی وئیر "(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔
ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔
اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔
اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے' اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔ 
برونی نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔
خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔
برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک" بلاگ (Blog) " کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔

اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔

یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔
اس کتاب کانام 
" مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے"

The top five regrets of Dying 
تھا۔
برونی کی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلندترین سطح کوچھونے لگی۔
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے!

دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔
ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ 
برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔
اکثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔
بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔
مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔

اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔
ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔
سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔
برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔
اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔

برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔
مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی!

پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا 
کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ 
نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔
برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔

پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔

مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔

بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔ 
اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

مگر . . .

شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟