کسی کا ایک لاٹھی برابر مال بھی اس کی رضا مندی کے بغیر کھانا حرام ہے
اللہ تعالی نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ
النساء :19
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ وَذَلِكَ لِشِدَّةِ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ
مسند احمد، حدیث نمبر: 22504
کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔
یاد رکھیں کہ آج کل جو بہنیں اپنے بھائیوں کو وراثت میں سے اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں وہ دل کی رضامندی سے نہیں کرتیں حقیقت میں ان کا یہ فیصلہ مجبوری کی بنیاد پر ہوتا ہے وہ بے چاریاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے باپ کی وراثت میں اپنے بھائیوں سے حصہ لے لیا تو پھر ہم ان سے مل نہیں سکتیں لوگ ہمیں باتیں کریں گے ہم کس منہ سے اپنے بھائی کے گھر آئیں گی ان کی یہ مجبوری ہوتی ہے حصہ نہ لینا
کبھی سوچا کہ چھوٹی عمر میں تو جو کچھ بھائی کو ملتا تھا وہی بہن بھی مانگتی تھی برابر کا جیب خرچ برابر کے کپڑے مگر شادی ہوجانے کے بعد وہ کون سی مجبوری ہے کہ بہن اپنا سارا حصہ بھائی کو چھوڑ دیتی ہے
آپ نے کبھی ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کو حصہ معاف کر دیا ہو کہ میں نہیں لیتا میری بہن کو دے دو سوچیں ایسا کیوں ہے