Sunday, October 11, 2020

وراثت سے بیٹیوں اور بہنوں کو حصہ دو

کسی کا ایک لاٹھی برابر مال بھی اس کی رضا مندی کے بغیر کھانا حرام ہے

اللہ تعالی نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے لیے حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ 
النساء :19

 ابوحمید ساعدی  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

 لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْخُذَ عَصَا أَخِيهِ بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسِهِ وَذَلِكَ لِشِدَّةِ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ

مسند احمد، حدیث نمبر: 22504

 کسی شخص کے لئے اپنے کسی بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضا مندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال حرام قرار دیا ہے۔
 
یاد رکھیں کہ آج کل جو بہنیں اپنے بھائیوں کو وراثت میں سے اپنا حصہ معاف کر دیتی ہیں وہ دل کی رضامندی سے نہیں کرتیں حقیقت میں ان کا یہ فیصلہ مجبوری کی بنیاد پر ہوتا ہے  وہ بے چاریاں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے باپ کی وراثت میں اپنے بھائیوں سے حصہ لے لیا تو پھر ہم ان سے مل نہیں سکتیں لوگ ہمیں باتیں کریں گے ہم کس منہ سے اپنے بھائی کے گھر آئیں گی ان کی یہ مجبوری ہوتی ہے حصہ نہ لینا

کبھی سوچا کہ چھوٹی عمر میں تو جو کچھ بھائی کو ملتا تھا وہی بہن بھی مانگتی تھی برابر کا جیب خرچ برابر کے کپڑے مگر شادی ہوجانے کے بعد وہ کون سی مجبوری ہے کہ بہن اپنا سارا حصہ بھائی کو چھوڑ دیتی ہے 

آپ نے کبھی ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کو حصہ معاف کر دیا ہو کہ میں نہیں لیتا میری بہن کو دے دو سوچیں ایسا کیوں ہے

احساس

وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا
جو کے اس کے بیوی نے صبح اس کو کھا تھا. 
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,, 
,,کیوں...کیا ھوا ؟؟؟
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی. 
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی؟؟
,,کیوں...کیا ھوا؟؟
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے یہ کلاس ٹیچر تھی
وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کا سر فخر سے بلند تھا 
اسے اپنی منی پر پیار آ رھا تھا 
اتنی سے عمر میں اتنی بڑی سوچ غریب بچوں کے لئی احساس 
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی. 
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا. 
ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے. 
درد دل کا مرض ھے
ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی...

اللہ ہم سب کو بھی احساس کرنے والا دل دے آمین....

جیسا کروگے ویسا بھروگے

سکول کے تین طالب علم لڑکوں نے سکول کے چوکیدار کو کچھ روپے پیسے دیے اور کہا کہ چُھٹی کے وقت کسی ایک لڑکی کو کسی بھی طرح اندر ہی روک لینا 
لالچی چوکیدار نے پیسے لیے اور جونہی چُھٹی ہوئی تو اُس نے ایک لڑکی کو گیٹ کے پاس ہی بٹھا دیا 
باہر جب اس لڑکی کا والد اُسے لینے آیا تو چوکیدار نے کہہ دیا کہ آپ کی بچی تو جا چکی ہے 
جب والد چلا گیا تو چوکیدار نے اُسے کہا کہ آپ کے ابو آجائیں گے تم ٹینشن نہ لو اور اندر کلاس میں جا کر بیٹھ جاؤ جب کوئی آئے گا تو میں تمہیں اطلاع کر دوں گا _
لڑکی پریشانی کے عالم میں کلاس میں جا کر انتظار کرنے لگی تو چُپکے سے چوکیدار نے کمرے کا دروازہ لاک کر دیا _
پھر وہ ہوس کے پُجاری تینوں لڑکے آ گئے ، پہلے ایک نے جا کر زبردستی زیادتی کی پھر دوسرے نے بھی ..
لیکن جب تیسرا لڑکا اُس کم سِن لڑکی سے اپنی پیاس بُجھانے اندر داخل ہوا تو آگے اُس بچی کو دیکھ کر اس کی سانسیں رُک گئیں اور پتھر کی طرح ساکت ہو گیا ...
جانتے ہو کیوں ۔۔؟؟؟ 
کیونکہ آگے وہ لڑکی اُس لڑکے کی بہن تھی !! 

لوگوں کی بہن بیٹیوں کو داغدار کرنے والو سنو ! 
ایک نہ ایک دن تمہاری بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو گا کیونکہ یہ ایک قرض ہے جو چُکانا ہی پڑتا ہے اور اس قرض سے باہر نکلو  اور اللّه سے توبہ کرو اللہ ہمیں اس گناہ سے بچائے
آمین

Saturday, October 10, 2020

موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے


*دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف "کرسڈا روڈریگز" نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے۔*

*1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔*
    
*2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔  لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔*
   
 *3. بینک میں کافی رقم ہے۔  لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔*
  
 *4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔*
    
 *5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں ۔  لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔*
    
 *6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔*
    
 *7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔*
    
*8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں۔  لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔*
    
 *9.اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔*
    
*یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔  اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔*
    
*بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے ۔ "


موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے۔،،

Friday, October 9, 2020

اللہ کی مخلوق کو کھانا کھلانا



ایک بندے کا جنازہ دیکھا تو اتنی رش تھی کہ پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی میں نے کہا کوئی بڑے بندے کا ہوگا تو شامل ہوگیا پھر دوائی لینے آیا جنازہ گاہ کے قریب تو دوائی والے کو میں کہہ رہا تھا بہت زیادہ رش تھی کوئی بڑا بندا ہوگا ، 

تو دوائی والا بولا نہیں جناب یہ آگے کہی پے چوکیدار تھا میں بڑا حیران ہوا کہ آج کل کے دور میں چوکیدار اور اتنی رش تو دوائی والا بولا جناب میں بھی حیران تھا آپ کی طرح لیکن جب پتہ لگا تو حیرت میں اضافہ ہوا کہ یہ چوکیدار 40 لوگوں کے گھر کا چولہا جلاتا تھا بس میرے پاس اب تک الفاظ نہیں ہیں کہ اسکی کیا تنخوا ہوگی اور کیسے پورا کرتا ہوگا یار 40 لوگ ؟ 

اسی طرح میں نے پاکستان کی ایک کمپنی کے ملازم کا واقعہ سنا اپنے کزن سے کہ کسی کمپنی میں ایک ملازم کام کرتا تھا تو حج کی قراندازی میں اسکا نام نکل آیا سننے میں آتا ہے کہ بد عمل تھا نماز وغیرہ نہیں پڑھتا تھا جب آذان ہوتی تھی تو غائب ہوجاتا تھا، ملازم نے پیسے لے لیے لیکن حج پر نہیں گیا دوبارہ جب کچھ عرصے بعد قراندازی ہوئی پھر اسی ملازم کا نام نکل آیا دوبارہ نہیں گیا اور پیسے وصول کرلیے تیسری بار کہتے ہیں پھر قراندازی ہوئی اسی ملازم کا نام نکل آیا اسکے باس وغیرہ حیران ہوگئے اور کہا یہ کیا وجہ ہے 3 بار اسی کا نام آرہا ہے، 

میٹینگ کی اس ملازم سے گزارش کی کہ اللہ کی مانو اور چلے جاؤ تمہارا بلاوا ہے بہت منتیں کرنے کے بعد ملازم نے کہا مجھے میرے سال کی تنخوا دیدو میں چلا جاتا ہوں کہتے ہیں باس لوگ خوش ہوۓ کہ یہ وہاں جاۓ گا تو اوروں کا نصیب ہوگا کہتے ہیں وہ ملازم وہاں گیا اور مکہ میں نماز کے دوران سجدہ کرتے ہوۓ اللہ کو پیارا ہوگیا ، 

جب خبر اسکے مالکان کو پہنچی وہ حیران ہوۓ کہ اتنی اعلی موت وہ بھی ایسے شخص کی جو عبادات دین سے بہت دور تھا اس کے مالکان اس کی بیوی کے پاس پہنچ گئے اور اس سے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ زندگی گزاری ہے لیکن اس میں کوئی نیک عمل ہمیں نظر نہیں آیا بتاؤ یہ کیا وجہ ہے کہ اتنی مبارک موت اسکو نصیب ہوئی کہتے ہیں بیوی چھپاتی رہی ، 

لیکن بہت اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ اور تو کسی عمل کا نہیں پتا لیکن ساتھ گلی میں ایک مکان ہے وہاں ایک بیوہ عورت رہتی ہے اس کے دو چھوٹے بچے ہیں اس عورت پر علاقے والوں کی نظریں ہیں اور میرے خاوند نے کہا یہ آج کے بعد میری بہن ہے اس کو کوئی بھی نہیں دیکھے گا اور اس کو جو تنخواہ ملتی ہے اس تنخواہ میں سے اس کی اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرتا تھا اور حج کے پیسوں سے ان کے قرضے ختم کرتا تھا رب تعالی نے اپنے پاس بلا کر موت دی یہ سنتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، 

اور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ایک فرمان یاد آگیا کہ رب کو پانے کے لیے 50 کلومیٹر 100 کلومیٹر 500 کلو میٹر  والے راستے بھی ہیں لیکن ایک راستہ زیرو کلومیٹر کا ہے اور وہ ہے

 "اللہ کی مخلوق کو کھانا  کھلانا " 

چار علم


حاتم_طائی_نے_کہا_تھا، "
میں نے چار علم اختیار کیے اور دنیا کے تمام عالموں سے چٹکارا پالیا…!!" کسی نے پوچھا، "وہ چار علم کون کون سے ہیں_ _ ؟ حاتم_طائی نے جواب دیا_ _ _ !! _
 پہلا یہ کہ میں نے سمجھ لیا کہ جو رزق میری قسمت میں لکھاہے وہ نہ تو زیادہ ہوسکتا ہے، نہ کم_ اس لیے زیادہ کی طلب سے بے فکر ہوگیا _ 
دوسرا یہ کہ اللہ کا دیا ہوا جو حق مجھ پر ہے وہ میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر  سکتا _ اس لیے میں اس کی ادائیگی میں مشغول ہوگیا_ _ 
تیسرا یہ کہ ایک چیز مجھے ڈونڈھ رہی ہے میری موت_ میں اس سے بھاگ تو سکتا نہیں، لہذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا_ _ 
چوتھا یہ کہ میرا اللہ مجھ سے باخبر رہتا ہے_ چنانچه میں نے اس سے شرم رکھی اور برے کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ کاموں سے ہاتھ اٹھالیا_ 
یہ چار علم زندگی کے لیے اصول اور ایسی مشغل راہ ہیں کہ جس نے انھیں اپنالیا زندگی اس کے لیے اتنی آسان اور مطمئن ہو جائیگی کہ دنیا میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔

اے ابنِ آدم


میں تیری پسلی سے پیدا کی گئی بنتِ حوّا ہوں
بہن کے روپ میں تیری غیرت بنا کر اتاری گئی 
ماں کے روپ میں تیری عظمت بنا کر اتاری گئی 
بیوی کے روپ میں تیری رفاقت بنا کر اتاری گئی 
بیٹی کے روپ میں ترے لئیے رحمت بنا کر اتاری گئی 
اے ابنِ آدم!
تو کیوں نہیں دیکھتا؟
تو کیوں نہیں سوچتا؟
تو ایسا کیوں ہے کرتا؟
اے ابنِ آدم تُو، تو محافظ بنا کر اتارا گیا ہے بنتِ حوّا کا 
پھر کیوں؟ 
میرے آنچل سے  خاص ستارہ جھڑتا ہے 
میری آنکھوں کی چمک ختم ہوجاتی ہے 
میرے چہرے کی حیّا سلب کی جاتی ہے 
میرے لبّوں کی مسکان چھین لی جاتی ہے 
تُو، تو ابنِ آدم ہے بنتِ حوّا کا محافظ! 
پھر تُو کیوں بنا؟ 
ظالم، جابِر اور قاتل
پھر تو بنتِ حوّا کے لئیے کیوں بنا ہوس کا پجاری؟ 
اے ابنِ آدم! میں تیری پسلی سے پیدا کی گئی بنتِ حوّا ہوں
پھر تُو کیوں؟
میرے بابا کے کمزور کندھے جھکاتا ہے؟
میرے بھائی کو خون کے آنسو رلاتا ہے؟
میری ماں کی درد بھری آہ خود کو لگاتا ہے؟
تّو، تو اندھا ہوگیا ہے ہوس میں 
تُو، سب کچھ بھول گیا جوش میں
تُو نے خود کو طاقتور جان کر بنتِ حوّا پر ظلم کا دھاوا بول دیا 
تو کیوں بھول گیا ایک طاقت ہے جو سب پر بھاری ہے 
جو سب سے بلند ہے 
جو سب سے بڑا ہے 
 وه سب دیکھ رہا ہے 
وه سب سن رہا ہے 
تُو چھوڑ ظلم کا راستہ 
اپنا اب سیدھا راستہ 
تجھے اللہ‎ کا واسطہ 
تُو آجا اب ہوش میں 
تیرے گھر میں بھی بنتِ حوّا ہے
جو تیری بہن ہے تیری بیٹی ہے 
ایک بنتِ حوّا دوسری بنتِ حوّا سے ابنِ آدم کا بدلہ نہیں لیتی
لیکن! !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
اے ابنِ آدم تُو سمجھ جا، تو سدھر جا، تُو سب کچھ چھوڑ جا اور بس یہ یاد کرجا
 کہ 
تُو ابنِ آدم ہے 
تُو بنتِ حوّا کا محافظ بن جا 
تُو بنتِ حوّا کا محافظ بن جا 
تُو بنتِ حوّا کا محافظ بن جا

بیگمات کے آنسو

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی لاڈلی بیٹی
''کلثوم زمانی'' بیان کرتی ہیں:
''جس وقت میرے بابا کی بادشاہت ختم ہوئی اور تاج و تخت لٹنے کا وقت قریب آیا تو دلّی کے لال قلعہ میں ایک کہرام مچا ہوا تھا، در و دیوار پر حسرت برستی تھی، اُجلے اُجلے سنگِ مرمر کے مکان کالے سیاہ نظر آتے تھے۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ ڈیڑھ برس کی زینت میری گود میں تھی اور دودھ کے لیے بلکتی تھی، فکر اور پریشانی کے مارے ہم سب اسی یاس و ہراس کے عالم میں بیٹھے تھے کہ حضرت ظلِ سبحانی کا خاص خواجہ سرا ہم کو بلانے آیا۔ آدھی رات کا وقت، سناٹے کا عالم، گولوں کی گرج سے دل سہمے جاتے تھے لیکن حکم سلطانی ملتے ہی حاضری کے لیے روانہ ہو گئے۔ حضور مصلے پر تشریف رکھتے تھے، تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جب میں سامنے پہنچی، جھک کر آداب بجا لائی۔ حضور نے نہایت شفقت سے قریب بلایا اور فرمانے لگے''کلثوم لو اب تم کو خدا کو سونپا، قسمت میں ہوا تو پھر دیکھ مل لیں گے، تم اپنے خاوند کو لے کر فوراً کہیں چلی جاؤ، میں بھی جاتا ہوں، جی تو نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم بچوں کو آنکھ سے اوجھل ہونے دوں، پر کیا کروں ساتھ رکھنے میں تمھاری بربادی کا اندیشہ ہے، الگ رہو گی تو شاید خدا کوئی بہتری کا سامان پیدا کر دے۔''

اتنا فرما کر حضور نے دستِ مبارک دعا کے لیے بلند کیے جو رعشہ کے سبب کانپ رہے تھے، دیر تک آواز سے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے رہے

''خداوندا ! یہ بے وارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں ، یہ محلوں کے رہنے والے جنگل ویرانوں میں جاتے ہیں، دنیا میں ان کا کوئی یار و مددگار نہیں رہا۔ تیمور کے نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو پروردگار ! یہی نہیں بلکہ ہندستان کے سب ہندو مسلمان میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت چھائی ہے، میرے اعمال کی شامت سے ان کو رُسوا نہ کر اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے''۔

اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھا، زینت کو پیار کیا اور میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواہرات عنایت کر کے نور محل صاحبہ کو ہمراہ کر دیا جو حضور کی بیگم تھیں۔

پچھلی رات کو ہمارا قافلہ قلعہ سے نکلا، جس میں دو مرد اور تین عورتیں تھیں۔ مردوں میں ایک میرے خاوند مرزا ضیاء الدین اور دوسرے مرزا عمر سلطان ،جس وقت ہم لوگ رتھ میں سوار ہونے لگے صبح صادق کا وقت تھا، تارے سب چھپ گئے تھے، مگر فجر کا تارا جھلملا رہا تھا، ہم نے اپنے بھرے پرے گھر پر اور سلطانی محلوں پر آخری نظر ڈالی تو دل بھر آیا اور آنسو اُمنڈنے لگے۔ نواب نور محل کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں۔ صبح کے ستارے کا جھلملانا نور محل کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔

آخر لال قلعہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو کر کورالی گاؤں میں پہنچے اور وہاں اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ باجرے کی روٹی اور چھاچھ کھانے کو میسر آئی، اس وقت بھوک میں یہ چیزیں بریانی، متنجن سے زیادہ مزیدار معلوم ہوئیں۔ ایک دن رات تو امن سے بسر ہوا مگر دوسرے دن گرد و نواح کے جاٹ گوجر جمع ہو کر کورالی کو لوٹنے چڑھ آئے۔ سیکڑوں عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو چڑیوں کی طرح ہم لوگوں کو چمٹ گئیں۔ تمام زیور اور کپڑے ان لوگوں نے اُتار لیے۔ جس وقت یہ سڑی بسی عورتیں اپنے موٹے موٹے میلے ہاتھوں سے ہمارے گلے کو نوچتی تھیں تو ان کے لہنگوں کی ایسی بو آتی تھی کہ دم گھٹنے لگتا تھا

اس لوٹ مار کے بعد ہمارے پاس اتنا بھی باقی نہیں رہا جو ایک وقت کی روٹی کو کافی ہو سکتا تھا۔ حیران تھے کہ دیکھیے اب اور کیا واقعہ پیش آئے گا۔ زینت پیاس کے مارے رو رہی تھی، سامنے سے ایک زمیندار نکلا، میں نے بے اختیار ہو کر آواز دی بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا ''آج سے تو میری بہن اور میں تیرا بھائی''۔ یہ زمیندار کورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا، اس کا نام بستی تھا، اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کر کے ہم کو سوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔ ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میر فیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں، جن سے ہمارے خاندان کے خاص مراسم ہیں، وہاں لے چل۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا، مگر میر فیض علی نے ایسی بے مروتی کا برتاؤ کیا، جس کی کوئی حد نہیں، صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کہ میں تم لوگوں کو ٹھہرا کر اپنے گھر بار تباہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ وقت بڑا مایوسی کا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہو گی، اس پر بے سر و سامانی کا یہ عالم کہ ہر شخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی جو لوگ ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہر وقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو کچھ حکم دیں فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بے زار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ اس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نبہایا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔ 

لاچار اجاڑہ سے روانہ ہو کر حیدر آباد کا رُخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پہنچے، جہاں کومل کے نواب کی فوج کا پڑاؤ تھا، انھوں نے جو سنا کہ ہم شاہی خاندان کے ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کر کے ندی سے پار اُتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اُترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آ گئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہو کر لڑیں، مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جایئے، ہم جیسا ہو گا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے، جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔ ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا یا ناگہانی طور پر گولی لگی۔ جو کچھ بھی ہوا ایک گولی کھیت میں آئی، جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر بھاگے۔ پر ہائے ! کیسی مصیبت تھی ہم کو بھاگنا بھی نہ آتا تھا، گھاس میں اُلجھ اُلجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں، برہنہ سر حواس باختہ ہزار دِقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نواب نور محل کے پاؤں خونم خون ہو گئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔ زینت پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے، مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔نواب نور محل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ میں زینت کو سینےسے لگائے اپنے خاوندکا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں، کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔ قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہو گئی لیکن فقیروں کو چین و اطمینان ہوتا ہے، یہاں وہ بھی نصیب نہیں۔

فوج لڑتی ہوئی دُور نکل گئی تھی۔ بستی، ندی سے پانی لایا ہم نے پیا اور نواب نور محل کے چہرے پر چھڑکا۔ نور محل رونے لگیں اور بولیں ابھی خواب میں تمھارے بابا حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''آج ہم غریبوں کے لیے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نور محل گھبرانا نہیں ہمت سے کام لینا۔ تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں، ذرا میری کلثوم کو دکھا دو، جیل خانے جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا''۔ بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہو گا، کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے ان سےکہا، کہ خواب و خیال ہے، بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے، تم گھبراؤ نہیں وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ حافظ سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں گےخود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نور محل تم نے تو طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے، میں کہتی ہوں کہ بنئے بقالوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دُور نہیں ہے، مگر میرے شوہر مرزا ضیاء الدین نے تسکین دلاسے کی باتیں کر کے سب کو مطمئن کر دیا۔ اتنے میں بستی ناؤ میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دُور جا کر شام ہو گئی اور ہماری گاڑی ایک گاؤں میں جا کر ٹھہری جس میں مسلمان راجپوتوں کی آبادی تھی۔ گاؤں کے نمبردار نے ایک چھپر ہمارے واسطے خالی کرا دیا جس میں سوکھی گھاس اور پھوس کا بچھونا تھا۔ وہ لوگ اسی گھاس پر جس کو پیال یا پرال کہتے تھے، سوتے تھے۔ ہم کو بھی بڑی خاطر داری سے (جو ان کے خیال میں بڑی خاطر تھی) یہ نرم بچھونا دیا گیا۔ میرا تو اس کوڑھے سے جی اُلجھنے لگا۔ پر کیا کرتے اس وقت سوائے اس کے کیا ہو سکتا تھا، ناچار اسی میں پڑے رہے۔ دن بھر کی تکلیف اور تکان کے بعد اطمینان اور بے فکری میسر آئی تھی، نیند ا ٓگئی۔ آدھی رات کو چانک ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔ گھاس کے تنکے سوئیوں کی طرح بدن میں چبھ رہے تھے اور پسو جگہ جگہ کاٹ رہے تھے۔ اس وقت کی بے کلی بھی خدا کی پناہ، پسوؤں نے تمام بدن میں آگ لگا دی تھی۔ مخملی تکیوں، ریشمی نرم نرم بچھونوں کی عادت تھی اس لیے تکلیف ہوئی ورنہ ہم ہی جیسے وہ گاؤں کے آدمی بھی تھے، جو اسی گھاس پر پڑے سوتے تھے۔ اندھیری رات میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور میرا دل سہما جاتا تھا۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بال بچے یوں خاک پر بسیرے لیتے پھریں گے۔ 

قصہ مختصر اسی طرح منزل بہ منزل تقدیر کی گردشوں کا تماشا دیکھتے ہوئے حیدر آباد پہنچے اور سیتا رام پیٹھ میں ایک مکان کرایہ کا لے کر ٹہرے۔ جبل پور میں میرے شوہر نے ایک جڑاؤ انگوٹھی جو لوٹ کھسوٹ سے بچ گئی تھی، فروخت کی، اسی میں راستہ کا خرچ چلا اور چند روز یہاں بھی بسر ہوئے، جو کچھ تھا ختم ہو گیا، اب فکر ہوئی کہ پیٹ بھرنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔ میرے شوہر اعلیٰ درجہ کے خوش نویس تھے، انھوں نے درود شریف خط ریحان میں لکھا اور چار مینار پر ہدیہ کرنے لے گئے۔ اس کے بعد یہ قاعدہ ہوا کہ جو کچھ لکھتے کمتی بڑھتی فوراً بک جاتا۔ اس طرح ہماری گزر اوقات عمدگی سے ہونے لگی۔ لیکن موسیٰ ندی کے چڑھاؤ سے ڈر کر شہر میں داروغہ احمد کے مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ شخص حضور نظام کا خاص ملازم تھا، اس کے بہت سے مکان کرایہ پر چلتے تھے۔ چند روز بعد خبر اُڑی کہ نواب لشکر جنگ، جس نے شہزادوں کو اپنے پاس پناہ دی تھی، انگریزوں کے عتاب میں آ گیا ہے اور اب کوئی شخص دہلی کے شہزادوں کو پناہ نہیں دے گا، بلکہ جس کسی شہزادے کی خبر ملے گی اس کو گرفتار کرانے کی کوشش کرے گا۔ ہم سب اس خبر سے گھبرا گئے اور میں نے اپنے شوہر کو باہر نکلنے سے روک دیا کہ کہیں کوئی دشمن پکڑوا نہ دے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے فاقوں کی نوبت آ گئی تو ناچار ایک نواب کے لڑکے کو قرآن پڑھانے کی نوکری میرے شوہر نے بارہ روپیہ ماہوار پر کر لی۔ چپ چاپ اس کے گھر چلے جاتے اور پڑھا کر آ جاتے، مگر وہ نواب اس قدر بدمزاج تھا کہ ہمیشہ معمولی نوکروں کی طرح میرے شوہر کے ساتھ برتاؤ کرتا تھا، جس کی برداشت وہ نہ کر سکتے تھے اور گھر میں ا ٓکر رو رو کر دعا مانگتے کہ الٰہی اس ذات کی نوکری سے تو موت لاکھ درجہ بڑھ کر ہے، تو نے اتنا محتاج بنا دیا، کل تو اس نواب جیسےسیکڑوں ہمارے غلام تھے اور آج ہم اس کے غلام ہیں۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو ہماری خبر دی۔ میاں کی حیدر آباد میں بڑی عزت تھی، کیونکہ میاں حضرت کلے میاں صاحب چشتی نظامی فخری کے صاحبزادے تھے، جن کو بادشاہ دہلی اور نظام اپنا پیر تصور کرتے تھے۔ میاں رات کے وقت میانہ میں سوار ہو کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم کو دیکھ کر بہت روئے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ قلعہ میں تشریف لاتے تھے تو مسند زرنگار پر بٹھائے جاتے تھے۔ آج وہ گھر آئے تو ثابوت بوری بھی نہ تھی، جس پر وہ آرام سے بیٹھ جاتے۔ پچھلا زمانہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ خدا کی شان، کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ میاں بہت دیر تک حالات دریافت فرماتے رہے۔ اس کے بعد تشریف لے گئے۔ صبح کو پیام آیا کہ ہم نے خرچ کا انتظام کروا دیا ہے، اب تم حج کا ارادہ کر لو۔ یہ سن کر جی باغ باغ ہو گیا اور مکہ مکرمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ 

القصہ حیدر آباد سے روانہ ہو کر بمبئی آئے اور یہاں اپنے سچے رفیق، بستی کو خرچ دے کر اس کے گھر رخصت کر دیا۔ جہاز میں سوار ہوئے، جو مسافر یہ سنتا تھا کہ یہ شاہِ ہند کے گھرانے کے ہیں تو ہمارے دیکھنے کا شوق ظاہر کرتا تھا، اس وقت ہم سب درویشانہ رنگین لباس میں تھے۔ ایک ہندو نے، جس کی شاید عدن میں دکان تھی اور جو ہمارے حال سے بے خبر تھا، پوچھا کہ تم لوگ کس پنتھ کے فقیر ہو، اس کے سوال نے زخمی دل کو چھیڑ دیا، میں بولی: ''ہم مظلوم شاہ گرو کے چیلے ہیں، وہی ہمارا باپ تھا وہی ہمارا گرو۔ پاپی لوگوں نے اس کا گھر بار چھین لیا اور ہم کو اس سے جدا کر کے جنگلوں میں نکال دیا، اب وہ ہماری صورت کو ترستا ہے اور ہم اس کے درشنوں بغیر بے چین ہیں''۔ اس سے زیادہ اور کیا اپنی فقیری کی حالت بیان کریں۔ جب اس نے ہماری اصلی کیفیت لوگوں سے سنی تو بے چارہ رونے لگا اور بولا '' بہادرشاہ ہم سب کا باپ اور گرو تھا۔ کیا کریں رام جی کی یہی مرضی تھی کہ وہ بے گناہ برباد ہو گیا۔ مکہ پہنچے تو اللہ میاں نے ٹھہرنے کا ایک عجیب ٹھکانہ پیدا کر دیا۔ عبدالقادر نامی میرا ایک غلام تھا، جس کو میں نے آزاد کر کے مکہ بھیج دیا تھا، یہاں آ کر اس نے بڑی دولت کمائی اور زمزم کا داروغہ ہو گیا، اس کو جو ہمارے آنے کی خبر ملی، دوڑا ہوا آیا اور قدموں پر گر کر خوب رویا، اس کا مکان بہت اچھا اور آرام دہ تھا، ہم سب وہیں ٹھہرے۔چند روز کے بعد سلطان روم کے نائب کو جو مکہ میں رہتا تھا، ہماری خبر ہوئی تو وہ بھی ہم سے ملنے آیا۔ کسی نے اس سے کہا تھا کہ شاہِ دہلی کی لڑکی آئی ہے جو بے حجابانہ باتیں کرتی ہے۔ نائب سلطان نے عبدالقادر کے ذریعے سے ملاقات کا پیام دیا جو میں نے منظور کیا۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر پر آیا اور نہایت ادب قاعدہ سے بات چیت کی۔ آخر میں اس نے خواہش کی کہ میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب بہت بے پروائی سے دیا کہ، اب ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آ گئے ہیں، اب ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پروا نہیں ہے۔ نائب نے ایک معقول رقم ہمارے اخراجات کے لیے مقرر کر دی اور ہم نو برس وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف، ایک سال نجف اشرف و کربلائے معلی میں بسر ہوا۔ اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہو کر دہلی آ گئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کر دس روپیہ ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ اس پنشن کی رقم کا سن کر اوّل تو مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپیہ معاوضہ دیتے ہیں، مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے ،جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔

بیگمات کے آنسو(بنت بہادر شاہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : خواجہ حسن نظامی

چیونٹی

آپ نے کبھی چیونٹی کے سامنے انگلی رکھی ہے؟ تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ فورا راستہ بدل لیتی ہے، وہ یہ نہیں سوچتی کہ میرے سامنے کتنی بڑی چیز ہے اب میں کیا کروں گی، میرا کیا بنے گا؟ مجھے کہاں راستہ ملے گا، وہ سر پکڑ کر بیٹھ نہیں جاتی بلکہ وہ اگلے قدم اٹھاتی ہے اور بغیر الجھے اپنا الگ راستہ بنالیتی ہے۔۔
یہ ایک چھوٹی سی چیونٹی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان عقل کے ہونے کے جب اس کے سامنے ایک راستہ بند ہوتا ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے ، اب میرا کیا ہوگا؟ میرا تو کوئی اپنا نہیں ہے؟ 
چیونٹی کی طرح راستہ کیوں نہیں بدلتا؟

اچھے رویہ کی طاقت


ایک عورت نے اپنی والدہ سے اپنے شوہر کے بد مزاجی کی شکایت کی اور شوہر کی بد مزاجی دور کرنے کے لئے کوئی طریقہ پوچھا ؟
والدہ نے بیٹی سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے پاس تمہارے اس مسئلہ کےحل کیلئے ایک تعویذ ہے لیکن اس تعویذ میں شیر کی گردن کا بال بند کرنا ضروری ہے مگر شرط یہ ہے کہ بال تم نے خود اپنے ہاتھ سے شیر کی گردن سے توڑنا ہوگا ۔
وہ عورت پہلے تو پریشان ہوئی لیکن شوہر کی بد مزاجی دور کرنے کیلئے اس نے شیر کے بارے معلومات حاصل کرنا شروع کی تو اسے یہ معلوم ہوا کہ شیر کبھی بلاوجہ کسی پر حملہ نہیں کرتا شیر جب بھوکا ہو یا اسے خطرہ محسوس ہو تو تب حملہ کرتا ہے ۔
اب اس عورت نے جنگل جاکر شیر کیلئے گوشت رکھنا شروع کیا پہلے چند دن شیر سے دور دور رہ کر اسے خوراک دی پھر آہستہ آہستہ قریب آنے لگی ایک دو ماہ کی محنت کے بعد یہ شیر کے قریب آگئی شیر پر ہاتھ پھیرنے لگی شیر بھی اس سے مانوس ہوگیا پھر ایک دن اس نے شیر کی گردن سے ایک نہیں بلکہ کئی بال توڑ لیے اور ان بالوں کو لے کر اپنی والدہ کے پاس آئی اور اپنی والدہ سے کہا کہ وہ اب اسے تعویذ بناکر دے-
اس کی والدہ مسکرائی اور کہا کہ میری بیٹی دیکھ شیر جیسے درندے سے اگر اچھا رویہ رکھا جائے اس سے پیار کیا جائے تو وہ درندہ بھی اپنی درندگی چھوڑ کر محبت سے پیش آتا ہے ۔ تیرا شوہر تو انسان ہے تو اس سے اچھا رویہ رکھ اسکا خیال رکھ دیکھنا اس کا مزاج بھی درست ہوجائے گا۔  
جزاک اللہ خیر