Friday, October 23, 2020

دوسروں کے عیب نہ ڈھونڈیں

لوگوں کی عاقبت کے حوالے سے ہمیں کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جانے اور وہ بندہ جانے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے، ''وہ شخص جنت میں نہیں جاسکتا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑنا شروع کردیں۔'' دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں اور تو کوئی خامی نہیں پائی جاتی، لیکن یہ خامی پائی جاتی ہے کہ ان کے شر سے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ اصول وضوابط بنائے ہوتے ہیں۔ تعلقات کے احساسات ہوتے ہیں۔ ان کا زبان سے پتا نہیں چلتا، صرف محسوس ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے اندر سے پوچھا جائے تو جواب مل جائے گا۔ یہ گھاٹے کا رویہ ہے۔ کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی بھی شخص اپنی چیز کسی ایسے بینک میں نہیں رکھوانا چاہتا ہے جہاں چوری ہونے کا گمان ہو۔ کوئی ایسی گاڑی نہیں خریدنا چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا لازماً ایکسیڈنٹ ہونا ہے۔ کوئی ایسا کپڑا خریدنا نہیں چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہ پھٹ جائے گا۔ اور کوئی ایسی شادی نہیں کرنا چاہے گا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ اگر کسی کو دوست بنانے کیلئے یہ شرط رکھ د یں کہ اپنے آپ کو تھوڑا ٹھیک کرو تو وہ کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا۔ دوستی کیلئے وہ جیسا بھی ہے، اس کو ویسا ہی قبول کرنا پڑے گا۔ سمجھ دار انسان دوست بنا کر اس پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔
 جو دوسروں میں عیب تلاش کرتا ہے اس کے ماضی میں جا کر دیکھیں تو پتاچلتا ہے کہ یہ رویہ اس میں شروع سے بنا ہوا تھا۔ ویسے یہ رویہ زیادہ تر تنگ دل لوگوں کا ہوتا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے لاشعوری طور پر نقل کیے ہوتے ہیں۔ جس گھر کے بڑے سب سے چھوٹے کے بارے میں احساس کر رہے ہوں تو   اللہ تعالیٰ انھیں بہت نوازتا ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھے بھلے بندے کو چھوٹا کر دیتے ہیں، جبکہ اللہ کے ہاں اس کا مقام بڑا ہوتا ہے۔
ہر انسان اہم ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت جاننے کیلئے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کو دس دن کی چھٹی دے دیں، اوقات یاد آجائے گی۔جو شخص کسی کو قدر نہیں دیتا، وہ خود بے قدرا ہو جاتا ہے۔جب بندہ دوسروں کی قدر کرتا ہے تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی قدر کراتا ہے۔ یہ وہ شے ہے جو دی کہیں جاتی ہے اور ملتی کہیں اور سے ہے۔ ہم بندے کی قدر کرتے ہیں اور اسی سے صلہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی کی قدر کی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی جگہ پر صلہ دیتا ہے جس کی توقع نہیں ہوتی۔ 
رویہ زیادہ تر ریفلیکشن سے بنتا ہے اور یہ زیادہ تر گھروں سے بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منبر سے بنتا ہے۔ تیسرے نمبر پر استادوں سے بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر معاشرے سے بنتا ہے۔ شرعی طور پر لوگ ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن لوگ انھیں سماجی طور پر برا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شخص کی عمر پچاس برس ہے۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب شرعی طور پر وہ ایک لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جس کی عمر اٹھائیس بر س ہے۔ اس کے اس عمل پر پورا معاشرہ باتیں کرے گا۔ لوگ اتنے گندے نہیں ہوتے، لیکن ان کا ذہن بہت گندا ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنے اندر غلاظت تلاش کرتاہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ غلاظت تو میرے ہی اندر ہے۔ جب پتا لگ جائے کہ میرا یہ رویہ غلط زاویہ نظر پر قائم ہے تو پھر جتنی جلدی ممکن ہوسکے، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کیجیے۔ لوگوں کے دلوں کے اندر گھس کر نہ دیکھئے۔ بندہ جانے اور اللہ جانے۔ صرف نصیحت ہوسکتی ہے، ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے ، دل میں برا کہاجا سکتا ہے، لیکن مہر نہیں لگا ئی جاسکتی۔ کیا پتا، وہ توبہ کرکے بخشا جائے اور جو فتویٰ لگانے والا ہے، وہ رہ جائے۔
(قاسم علی شاہ کی کتاب انچی اڑان سے ماخذ)

بیوی کا شوہر سے حسن اخلاق

میں اپنے شوہر کو پچھلے چھ ماہ سے اپنے قریب نہیں آنے دے رہی انیلہ نے فخر سے اپنی دوست کو بتاتے ہوئے کہا وہ میری منتیں کرتے ہیں مجھے اپنے پاس بلاتے ہیں مگر میں حقارت سے انکو دھتکار دیتی ہوں
اچھا کیا وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے؟
ہونہہ انکی جرآت ہے جو مجھ سے اونچی آواز میں بات کریں جینا حرام نہ کر دوں میں انکا۔۔

آج انیلا بستر مرگ پر پڑی ہے موت بھی اس کو قبول نہیں کرتی اس کو کینسر ہو گیا ہے جس جسم کو وہ شوہر سے دور رکھتی تھی آج اسی جسم میں جگہ جگہ گلٹیاں بنی ہیں جو گندے مواد سے بھرتی ہیں اور پھر پھٹ جاتی ہیں شدید بدبو اور تکلیف سے چیختی انیلا موت کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے اسکے شوہر نے بھی اسکو معاف کر دیا ہے وہ ہی اس کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے مگر شاید قدرت اسکو نشان عبرت بنانا چاہتی ہے

یہ سچا واقعہ لاہور کا ہے جب مرد و عورت نکاحِ کرتے ہیں تو وہ صرف دو افراد کا ملاپ نہیں ہوتا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی دکھ تکلیف میں خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اللہ کے احکامات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں پورا کریں گے مگر ھمارے معاشرے میں ہوتا اس کے برعکس ہے ایک دوسرے پر فتح حاصل کی جدو جہد شروع کی جاتی ہے مرد چاہتا ہے عورت اسکے تابع ہو عورت چاہتی ہے کہ اس کی راجدھانی قائم ہو جس میں وہ اکیلی حکومت کرے اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے وہ عورت جس کو شوہر کے بلانے پر نماز تک چھوڑ دینے کا حکم ہے وہ شوہر کے بلانے پر ہونہہ کہہ کر سو جاتی ہے اور بعد میں فخر محسوس کرتی ہے تو ایسی عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ساری رات مسلسل بغیر کسی شرعی عذر کے دوری اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے اس دوران اگر شوہر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس میں بھی برابر کی حصہ دار بننتی ہے اللہ تعالیٰ ایسی عورت پر دنیا میں ہی عذاب نازل فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ ھماری عورتوں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے آمین کیونکہ نکاح دین کو مکمل کرتا ہے شیطان کو غرق کرتا ہے نکاح میاں بیوی کی محبت شیطان کو آگ لگا دیتی ہے. اللہ تعالیٰ ھم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سچی محبت

ایک بار ایسا ہوا کہ ہم میاں بیوی میں چھوٹی سی بات پر لڑائ ہو گئ, گرمیوں کی رات تھی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر سو گئے. آدھی رات کو مجھے پیاس لگی واٹر کولر پاس ہی میز پہ پڑا ہوا تھا میں نے خود اٹھ کر پانی پیا. اچانک میں نے مڑ کے دیکھا تو وہ مجھے غصے سے دیکھ رہی تھی اور بولی کہ آپ نے پانی خود کیوں پیا...؟ میں نے بھی غصے اور اکڑپن سے جواب دیا ہاتھ,پاؤں سلامت ہیں خود پی سکتا ہوں مفلوج نہی ہوں......
وہ قریب آ کر میرا گریبان پکڑ کر بولی کہ ایک بات غور سے سنو لڑائ اپنی جگہ لیکن میں اپنا حق اور خوشی نہیں چھیننے دوں گی. پتہ ہے آپ کو پانی دیتے ہوئے مجھے کتنی خوشی ہوتی بھلے ہی بات چیت بند کیوں نہ ہو لیکن پانی آپ خود نہیں پئیں گے..... اس کی آنکھیں نم اور نازک سرخ تھیں اسے گلے لگایا اور جھگڑا ختم کر دیا.
 اور اب دس سال بعد
 جب رات کو تین بجے پانی پینے کیلیے اٹھتا ہوں تو دیوار پہ لگی اس کی خوبصورت تصویر بھیگ جاتی ہے یا شاید میں اسے بھیگی ہوئ آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور یاد آتا ہے وہ کہتی تھی کہ "محبت" مر نہیں سکتی..
اپنے قریب لوگوں کی زندگی میں ہی قدرکیجئے

جی لو اپنی زندگی

یہ عادتیں ہی ہیں جو ہمیں بگاڑتی ہیں، سنوارتی ہیں یا جیتا رکھتی اور مارتی ہیں. یہ عادتیں ہی ہیں جن کے ہاتھوں ہم کم کم جیتے ہیں، یا پھر اپنی زندگی کا نقش چٹانوں پر چھوڑ جاتے ہیں. ہم وہی کچھ بن جاتے ہیں جو ہم مسلسل کرتے ہیں. 

کیا آپ اپنی کسی ایسی عادت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو پچھلے دس برس سے آپ کے ساتھ ہے؟ اگر آپ وہاں تک پہنچ چکے ہیں تو آپ کو یہ احساس بھی ہوجائے گا کہ وہ عادت آپ کی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی ہے، چاہے اسے گاڑی چلانی آتی ہے، یا نہیں. 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی عادتوں کے بارے میں کم اور ہمیں جاننے والے ان عادتوں سے زیادہ واقف ہوتے ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر عادتوں کے ہاتھوں ہپناٹائز ہوچکے ہوتے ہیں. اور آٹو پر چل رہے ہوتے ہیں. 

عادتوں کی نفسیات پر پچھلے تیس برسوں میں بہت کام ہوا. انہی دنوں سٹیون کووے کی سات عادتوں کی کتاب بہت مقبول ہوئی. اب بات اس سے بہت آگے جاچکی ہے. مثال کے طور نفسیات نے حال ہی میں دریافت کیا کہ اگر آپ کوئی بھی کام، یہ جانتے ہوئے کریں کہ وہ آپ اپنے بجائے کسی اور کے لیے کر رہے ہیں تو وہ کام زیادہ جذبے اور تندہی سے انجام دیا جاتا ہے.

مثال کے طور پر اگر دو لوگ دوڑ رہے ہیں. ایک اپنی جان بنانے کے لیے اور دوسرا اپنی والدہ کے علاج کے لیے فنڈ ریزنگ کرنا چاہتا ہے تو وہ زیادہ انرجی کے ساتھ زیادہ دیر تک بھاگ سکے گا. 

اکثر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر کمند ڈالنے کے بجائے چھوٹے موٹے کاموں میں خرچ ہورہے ہیں، جب کہ ان کی منزل آسمانوں میں ہے. ایسے افراد عموماً اپنی عادات کے ہاتھوں ایک اوسط درجے کی زندگی گھسیٹ رہے ہوتے ہیں. ہائی پرفارمر بننے کے لئے اپنی عادتوں کو نتھ ڈالنی پڑتی ہے. 

نفسیات نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ اور کرنے والی عادتیں خود نہیں بنتیں بلکہ ان کے لیے پسینہ بہانا پڑتا ہے. 

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر، اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ہر روز دوہرا کر خوش رہتے ہیں. اکثر افراد کا بیس سالہ تجربہ ایک جیسی حرکتیں، مسلسل بیس برس تک کرتے رہنا ہوتا ہے. ایسا رویہ کچھ سیکھنے اور اپنی نشوونما کے لیے سم قاتل ہے. آپ نے اپنے دوستوں میں کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جنہوں نے گزشتہ بیس، پچیس برس میں مجال ہے اپنے آپ کو بدلا ہو. یہ رویہ اوسط درجے کی زندگی گزارنے کے لیے تیر بہدف نسخہ ہے. 

عادتوں کے حوالے سے ایک وارننگ دیتا چلوں کہ دنیا میں آپ کی عادتوں کے حوالے کر سب سے بڑا ایکسرے مشین آپ کی اہلیہ یا خاتون دوست کے اندر لگی ہوئی ہوتی ہے. 

عادتوں کے حوالے سے مشہور ہے کہ کوئی بھی کام اگر 21 دن مسلسل کرلیا جائے تو اس کو عادت میں بدلا جاسکتا ہے. ماسٹر ہیبٹ کے لیے تقریباً دس ہزار کے آس پاس گھنٹے درکار ہوتے ہیں. اگر آپ بولنے کو لکھنے کو پڑھنے کو، بھاگنے کو، یا کسی بھی مہارت کو دس ہزار گھنٹے دیں توانائی اس میں ماسٹری پیدا کرسکتے ہیں. 

بدقسمتی سے سیلف ڈسپلن، یعنی اپنے آپ سے الجھنا اور اپنے آپ سے کشتی کرنا، کسی بھی نئی عادت کے جنم لینے کے لیے سب سے بڑی شرط ہے. اکثر لوگ یہیں کھیت رہتے ہیں. مثال کے طور اپنے نیو ائیر ریزولیوشن ذہن میں لے کر آئیں؟  یا جب آپ نے آخری بار اپنا وزن کم کرنے کی نیت کی تھی؟ یا صبح کی سیر کے لئے الارم لگایا تھا؟ یا میٹھے سے پرہیز کا وچن کیا تھا؟ تبھی دنیا میں ٹیلنٹ کا سب سے بڑا مرکز قبرستان کو کہا جاتا ہے جہاں طرح طرح کے تان سین، ارطغرل، ٹییپو سلطان، محمد علی کلے، ساچن ٹنڈولکر اور دیگر ہیرو اپنے دل کے ارمان دل ہی میں لیے سو رہے ہوتے ہیں. 

چلیں ایک اور ٹیسٹ کرلیتے ہیں، آپ اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنی دھن کے پکے ہیں اور کوئی موسم، گرمی، سردی انہیں ان کے معمول یا فوکس سے باز نہیں رکھ سکتی؟ آپ انہیں بمشکل اپنی دس انگلیوں پر گن پائیں گے. 

ایک اور ٹیسٹ کر لیں، آپ کے خاندان یا دوستوں میں سے کس نے پچھلے پانچ برس میں وزن کم کیا اور پھر پانچ برس سے وہی کمی برقرار بھی رکھی ہے؟ اب صرف ایک ہاتھ کی انگلیاں ہی کافی ہورہیں گی. 

نفسیات کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق کامیاب سی ای او صرف اپنے بزنس میں ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی فٹ ہوتے ہیں اور ان کا انرجی لیول ایتھلیٹس کے مقابلے کا ہوتا ہے. اور یہ لیول صرف ورزش کی عادت پختہ ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے. 

تحقیقات کے مطابق دیکھا گیا ہے کہ ہر نئے دن کے آغاز پر اس دن یا دن میں ہونے والے کاموں کے بارے میں اپنی نیت واضح کرنے والے افراد زیادہ کامیاب رہتے ہیں. بس کوئی بھاری بھرکم کام نہیں. صرف یہی سوچنا ہے کہ آپ آج کے دن سے کیا چاہتے ہیں، کوئی بھی کام کیوں کررہے ہیں، اور کسی بھی ملاقات، فون کال یا سرگرمی سے کیا نکالنا چاہتے ہیں. سننے میں تو یہ عام سی بار لگتی ہے، آج سے کرنا شروع کریں تو اثرات معجزاتی ہوسکتے ہیں. 

تحقیقات میں یہ بھی دیکھنا گیا کہ اپنے کام سے پیچھے رہنے والے افراد ای میل لکھنے میں اپنے وقت جا ایک تہائی خرچ کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو ڈیڈ لائن دینے میں کمال رکھتے ہیں، تاہم چونکہ نیت میں کھوٹ ہوتا ہے سو صرف بیس فیصد نتائج حاصل ہوتے ہیں اور باقی ڈیڈ لائن مس ہوجاتی ہیں.

عادات کے حوالے سے ایک کمال کا سبق یہ سیکھا ہے کہ اگر دو عادتیں ہوں جن میں ایک عادت سے نشوونما ہوتی ہو، جب کہ دوسری عادت صرف تسلسل لے کر آتی ہو تو تسلسل والی عادت زیادہ بہتر ہے چاہے اس کے فوری نتائج سامنے نظر نہ آتے ہوں. تسلسل سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی نہیں. ہم وہی بن جاتے ہیں جو ہم ہر روز کرتے ہیں. غصے والے، نفرت والے، پریشانی میں مہارت رکھے والے، ایکسپرٹ ڈیپریسر، آج کا کام کل پر چھوڑنے والے ان کاموں میں دس ہزار گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی مہارت اوج کمال تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے، اپنے حساب اے آپ انہیں ڈاکٹر کہ سکتے ہیں. 

حوصلہ بھی بڑی عادتوں میں سے ایک ہے. ایک بہت بڑی بدقسمتی، ایک ایسی زندگی گزارنا ہے، جو آپ گزارنا نہیں چاہتے. یہ تو عمر قید ہوئی جس میں آپ اپنے ساتھ ہی بند رہ جائیں. تاہم بہت سے لوگ ایسا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی کا نقش نہیں چھوڑ پاتے. مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں ایک پینڈو بچے کے طور پر شہر میں آیا تھا تو کلاس میں سوال پوچھنے سے لے کر ہاتھ کھڑا کرنے جیسی چھوٹی چیز پر بھی گلے میں پھندا لگ جایا کرتا تھا. صنف نازک سے بات کرتے وقت تو باقاعدہ تھرتھلی چھوٹ جایا کرتی تھی،خیر ابھی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے. تاہم حوصلے کے حوالے سے یہی شئیر کروں گا کہ حوصلہ سیکھا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ حوصلے کی اداکاری بھی کرلی جائے تو کام بن جاتا ہے. 

ساری کہانی کا لب لباب یہ ہے لوگ غیر معمولی پیدا نہیں ہوتے، بلکہ اچھوتی عادتیں سیکھ کر اپنے آپ سے بڑے ہوجاتے ہیں. آپ اپنی عادتوں پر نظر رکھیں کہ آپ کی زندگی کا بڑا حصہ ان کے ہاتھوں لکھا جائے گا. جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیوں زندہ ہیں اور ہر روز واضح نیت کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں ان میں سے اکثر موت سے پہلے اپنی کچھ نہ کچھ زندگی جینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. 

ایک مثبت عادت، دینے یا بانٹنے کی عادت ہے. یہ عادت بہت سی عادتوں کی سردار عادت ہے. سچی بات تو یہی ہے کہ وہی ہمارے کام آتا ہے جو ہم بانٹ چکے ہوتے ہیں. 

( نئی کتاب 'صبح بخیر زندگی' سے اقتباس )

صبر اور برداشت میں فرق

سوال: فقیر کی نظر میں صبر اور برداشت میں کیا فرق ہے ؟
سرفراز شاہ صاحب 
فقیری میں برداشت اور صبر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ہم جب مشکلات کو ،کسی کے دیے ہو ئے دکھ کو یا پھر مصیبتوں کو ہائے ہائے کرتے ہو ئے گزرتے ہیں تو اس کو ہم برداشت کہتے ہیں لیکن اسی کو خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے ۔
برداشت کا اجر نہیں ہے بلکہ ایک رسک ہو تا ہے کہ انسان کہیں ناشکرا پن تو نہیں کر رہا ہے ۔صبر کا اجر بے پناہ ہے کہ رب کا ساتھ مل جاتا ہے. 
فقیر اس معاملے میں واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں اس لیے آپ کو کبھی بھی کوئی فقیر شکوہ شکایت کرتے نظر نہیں آئے گا ۔فقیر ہمیشہ سچ بولتا ہے لیکن تین معاملے میں فقیر جھوٹ بولتا ہے ایک تو جب بھوکا ہو تا ہے تو پیٹ بھرا ہوا ظاہر کرتا ہے ،دوسرا جب مشکل میں ہو تا ہے تواپنے آپ کو خوش ظاہر کرتا ہے اور جب وہ غم زدہ ہو تا ہے تو وہ اپنے غم کو چھپاتا ہے، درحقیقت وہ صبر کا مظاہر ہ کر رہا ہو تا ہے ۔

ہماری زندگی

زندگی کو زیادہ لمبا تصور نہ کریں 
جس مستقبل کے بارے میں ہم دن رات سوچتے رہتے ہیں 
ہو سکتا ہے وہ مستقبل آئے ہی نہ
لمبی زندگی کی گارنٹی تو کسی کے پاس نہیں 

بس جو اچھا ہو سکے وہ ضرور کردیں 
پھر پتہ نہیں دوبارہ ایسا موقع ملے یا نہ ملے 
ایسے ہی اپنی زندگی کا سفر مکمل کرتے جائیں گے 
ان شاء اللہ
*چھوٹی نیکیاں ہماری بخشش کا ایک بہانہ بن جائیں گی.....!!

حقیقی بلاوا

ایک مرد و عورت کی شادی ہوئی ۔اور انکی زندگی ماشاءاللہ خوشیوں سے بهری تهی.
شوہر ایک دن بیوی سے: تم نے آج نمازنہیں پڑھی۔۔؟؟
بیوی: میں تھک گئی تھی، اس لیے نہیں پڑهی، صبح پڑھ لوں گی۔۔
شوہر کو یہ بات بری لگی مگر اس نے بیوی سے کچھ نہ کہا. خود نماز پڑهی تلاوت کی اور سو گیا.

شوہر دوسرے دن بیوی کے اٹهنے سے پہلے ہی نماز پڑھ کر دفتر کیلئے نکل گیا۔۔
بیوی اٹهی۔ شوہر کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئی کہ اس سے پہلے ایسا کبهی نہیں ہوا۔ پریشانی کی عالم میں شوہر کو فون کیا لیکن کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ بار بار کال کی مگر جواب نہ ملا ۔۔
بیوی کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تهی۔ کچھ گھنٹے بعد کال کی تو شوہر نے اٹینڈ کی۔
بیوی نے ایک سانس میں نہ جانے کتنے سوال کر دیے.
کہاں تھے آپ۔۔؟
 کتنی کالز کی میں نے جواب نہیں دے سکتے تهے۔ پتہ ہے یہ وقت مجھ پہ کیسے گزرا.۔۔ آپ کو ذرا خیال نہیں. کم سے کم بتا تو سکتے تهے.
 شوہر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی کہ تهکا ہوا تها اس لیے لیٹ گیا تو نیند آگئی۔۔
بیوی: دو منٹ کی کال کر کے بتا دیتے تو کتنی تهکاوٹ بڑھ جاتی۔ آپکو مجھ سے ذرا پیار نہیں.

شوہر نے تحمل سے جواب دیا: کل آپ نے بھی تو اس پاک ذات کی کال کو نظرانداز کیا..
کیا آپ نے حی علی الفلاح کی آوازسنی تهی۔۔؟؟ وہ خدا کی کال تهی جو آپ نے تهکاوٹ کی وجہ سے نہیں سنی۔ اس وقت بهی 5 منٹ کی بات تهی.نماز پڑھنے سے آپ کی تهکاوٹ کتنی بڑھ جاتی.؟؟
 کیا آپکو اپنے اس پروردگار سے اتنا پیار بهی نہیں جس نے آپکو سب کچھ دیا. کیا پروردگار کو یہ بات پسند آئی ہو گی.

بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور روتے ہوئے بولی:
 مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں سمجھ گئی ہوں۔ میں سچے دل سے استغفار کرتی ہوں۔ میرے پروردگار مجهے معاف فرما۔ 

سچا شریک حیات وہی ہے جو آپ کو دنیاوی تحفظ اور خوشیوں کے ساتھ کے آخرت میں  بهی سرخرو کروائے اور آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ کو بھٹکنے سے بچائے.
خدا وند تعالی ہم سب کو نماز پڑهنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین یارب العالمین

#نوٹ : اس پوسٹ نے میری زندگی بدل دی۔ میں ساری رات سوچتا رہا کہ میرے رب کو کتنا برا لگتا ہوگا کہ میرا تخلیق کیا گیا بندہ، میرے ہی بلاوے کو نظر انداز کر رہا ہے۔۔
اللّٰہ تعالیٰ میری غلطیوں کو معاف فرمائے۔۔ اور
اللّٰہ تعالیٰ اس پیغام کو شیئر کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔۔
 آمین ثم آمین یارب العالمین

اصل کامیابی

بچوں کو بالغ ہوکر احساس ہوتا ہے کہ اصل کامیابی کھلونے جمع کرنا نہیں بلکہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنا ہے. پھر شادی ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ بہترین شریکِ حیات کا ملنا اصل کامیابی ہے. پھر روزگار کے معاملات سے دل میں یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ اصل کامیابی کاروبار کے وسیع ہونے یا ملازمت میں پرموشن سے ہے. جوانی ڈھلنے پر نقطہِ نظر تبدیل ہو جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو باصلاحیت اولاد، بڑے سے گھر اور بہترین گاڑی کے ہونے سے ہے. پھر بڑھاپے میں انسان کے نزدیک اصل کامیابی کا پیمانہ بیماریوں سے بچ کر جسمانی و دماغی تندرستی کا برقرار رہنا قرار پاتا ہے. بالآخر جب موت کا فرشتہ انسان کو لینے آ جاتا ہے تو اصل بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کامیابی کے تمام تر دنیاوی تصوّر درحقیقت بہت بڑا دھوکا تھے، اصل کامیابی کا تصوّر تو اللہ کی نازل کردہ کتاب میں درج ہے جسکے مطالعہ کا کبھی وقت ہی نہیں مل سکا تھا.

Wednesday, October 21, 2020

نظام محبت



عرض کیا کہ… درود شریف کے اندر ایک پورا نظام پوشیدہ ہے… ہم اسے *نظام محبت* اور *نظام رحمت* کہہ سکتے ہیں… درودشریف پڑھتے ہی یہ پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے… مختصر طور پر اس نظام کو سمجھ لیں… درودشریف پڑھنے والے نے … اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت دیا… کیونکہ درودشریف پڑھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے… یہ ہوئی پہلی محبت… درود شریف پڑھنے والے نے *حضور اقدس ﷺ* سے محبت کا ایک حق ادا کیا… یہ محبت ایمان کے لئے لازمی ہے…جب تک حضرت آقا مدنی ﷺ کی محبت … ہمیں ہر چیز سے بڑھ کر حاصل نہیں ہو گی… اس وقت تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا… اعتبار والا ایمان وہی ہے جس میں حضور اقدسﷺ سے محبت… سب سے بڑھ کر ہو… اپنے والدین، اپنی اولاد… اپنے مال اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر… انسان کو جب کسی چیز کی سچی محبت ہوتی ہے تو… وہ اس کا تذکرہ زیادہ کرتا ہے… آپ بازار چلے جائیں… ہر طرف مال، مال اور مال کی آوازیں سنیں گے… ہمیں *حضور اقدس ﷺ* کی صحبت حاصل نہیں ہوئی … مگر ہم آپ ﷺ کی محبت تو پا سکتے ہیں… یہ محبت ہمیں جس قدر زیادہ نصیب ہو گی اسی قدر ہمارے دل میں… آپﷺکی زیارت، شفاعت، صحبت اور تذکرے کا شوق بڑھے گا… درودشریف میں ایک بندہ اپنی اسی محبت کا اظہار کرتا ہے… تو یہ ہوئی دوسری محبت… ہم نے محبت سے درود شریف پڑھا تو… درودشریف کی خدمت پر مامور ملائکہ نے اسے محبت سے اُٹھایا اور سنبھالا … ان عظیم ملائکہ یعنی فرشتوں کے عجیب حالات حدیث شریف کی کتابوں میں آئے ہیں… یہ معزز فرشتے درود شریف کو اُٹھانے، سنبھالنے اور پہنچانے کی خدمت …بہت تیزی اور محبت سے سر انجام دیتے ہیں… فرشتوں کو درودشریف سے محبت ہے… اس کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے… یہ ہوئی تیسری محبت… پھر اللہ تعالیٰ نے ایک وسیع طاقت اور سماعت رکھنے والا ایک فرشتہ (ایک روایت میں دو فرشتے یا ایک فرشتہ) مقرر فرما رکھا ہے… جو درودشریف پڑھنے والے کو …بڑی محبت بھری دعاء دیتا ہے اور کہتا ہے ''غفراللّٰہ لک''… اللہ تعالیٰ تیری مغفرت فرمائے… فرشتے کی اس دعاء پر دیگر فرشتے آمین کہتے ہیں … اور اللہ تعالیٰ اس دعاء کو قبول فرماتے ہیں… یہ ہوئی چوتھی محبت… فرشتوں نے یہ درودشریف حضور اقدسﷺ تک… درود شریف پڑھنے والے کی ولدیت کے ساتھ پہنچا دیا کہ… یا رسول اللہ! فلاں بن فلاں نے آپ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا ہے…آپﷺاس صلوٰۃ و سلام کا محبت کے ساتھ جواب ارشاد فرماتے ہیں … سبحان اللہ! حضرت آقا مدنی ﷺ کا جواب … آپ ﷺ کی ہمارے لئے دعاء رحمت… اور ہمارے لئے سلام … یہ ہوئی پانچویں محبت… اب ان پانچ محبتوں کے بعد… محبت کے مئے خانہ کا اصل دور شروع ہوتا ہے … وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ توجہ خاص فرماتے ہیں … اور پھر اس بندے پر محبت اور رحمت کی بارش فرما دیتے ہیں… دس خاص رحمتوں کا نزول… دس درجات کی بلندی … دس گناہوں کی معافی…اور معلوم نہیں کیا کیا انعامات…
دیکھا آپ نے کہ… ہم نے جیسے ہی کہا،

*اللھم صل وسلم علیٰ سیدنا محمد*

تو زمین سے لے کر عرش تک… کیسا زبردست *نظام محبت و رحمت* متحرک ہو گیا.
اب جس بندے کو یہ نعمت نصیب ہوئی. اس کا کون سا مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو گا اور کون سی پریشانی ہے جو دور نہیں ہو گی.

Friday, October 16, 2020

Litmus Test

جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرا مقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ نہیں، ذمہ داری معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے، جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  "دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے" (صحیح مسلم)۔  اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے، ازروئے الفاظِ قرآنی:  "بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے" (القیٰمۃ)۔  ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتاً خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبویؐ میں کھینچا گیا ہے: "دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو"  (صحیح بخاری)۔  پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے، جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویہئ نگاہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے، لہٰذا ایک معین مدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں اس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ 
بحوالہ بیان القرآن