لوگوں کی عاقبت کے حوالے سے ہمیں کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جانے اور وہ بندہ جانے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے، ''وہ شخص جنت میں نہیں جاسکتا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑنا شروع کردیں۔'' دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں اور تو کوئی خامی نہیں پائی جاتی، لیکن یہ خامی پائی جاتی ہے کہ ان کے شر سے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ اصول وضوابط بنائے ہوتے ہیں۔ تعلقات کے احساسات ہوتے ہیں۔ ان کا زبان سے پتا نہیں چلتا، صرف محسوس ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے اندر سے پوچھا جائے تو جواب مل جائے گا۔ یہ گھاٹے کا رویہ ہے۔ کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی بھی شخص اپنی چیز کسی ایسے بینک میں نہیں رکھوانا چاہتا ہے جہاں چوری ہونے کا گمان ہو۔ کوئی ایسی گاڑی نہیں خریدنا چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا لازماً ایکسیڈنٹ ہونا ہے۔ کوئی ایسا کپڑا خریدنا نہیں چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہ پھٹ جائے گا۔ اور کوئی ایسی شادی نہیں کرنا چاہے گا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ اگر کسی کو دوست بنانے کیلئے یہ شرط رکھ د یں کہ اپنے آپ کو تھوڑا ٹھیک کرو تو وہ کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا۔ دوستی کیلئے وہ جیسا بھی ہے، اس کو ویسا ہی قبول کرنا پڑے گا۔ سمجھ دار انسان دوست بنا کر اس پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔
جو دوسروں میں عیب تلاش کرتا ہے اس کے ماضی میں جا کر دیکھیں تو پتاچلتا ہے کہ یہ رویہ اس میں شروع سے بنا ہوا تھا۔ ویسے یہ رویہ زیادہ تر تنگ دل لوگوں کا ہوتا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے لاشعوری طور پر نقل کیے ہوتے ہیں۔ جس گھر کے بڑے سب سے چھوٹے کے بارے میں احساس کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ انھیں بہت نوازتا ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھے بھلے بندے کو چھوٹا کر دیتے ہیں، جبکہ اللہ کے ہاں اس کا مقام بڑا ہوتا ہے۔
ہر انسان اہم ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت جاننے کیلئے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کو دس دن کی چھٹی دے دیں، اوقات یاد آجائے گی۔جو شخص کسی کو قدر نہیں دیتا، وہ خود بے قدرا ہو جاتا ہے۔جب بندہ دوسروں کی قدر کرتا ہے تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی قدر کراتا ہے۔ یہ وہ شے ہے جو دی کہیں جاتی ہے اور ملتی کہیں اور سے ہے۔ ہم بندے کی قدر کرتے ہیں اور اسی سے صلہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی کی قدر کی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی جگہ پر صلہ دیتا ہے جس کی توقع نہیں ہوتی۔
رویہ زیادہ تر ریفلیکشن سے بنتا ہے اور یہ زیادہ تر گھروں سے بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منبر سے بنتا ہے۔ تیسرے نمبر پر استادوں سے بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر معاشرے سے بنتا ہے۔ شرعی طور پر لوگ ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن لوگ انھیں سماجی طور پر برا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شخص کی عمر پچاس برس ہے۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب شرعی طور پر وہ ایک لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جس کی عمر اٹھائیس بر س ہے۔ اس کے اس عمل پر پورا معاشرہ باتیں کرے گا۔ لوگ اتنے گندے نہیں ہوتے، لیکن ان کا ذہن بہت گندا ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنے اندر غلاظت تلاش کرتاہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ غلاظت تو میرے ہی اندر ہے۔ جب پتا لگ جائے کہ میرا یہ رویہ غلط زاویہ نظر پر قائم ہے تو پھر جتنی جلدی ممکن ہوسکے، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کیجیے۔ لوگوں کے دلوں کے اندر گھس کر نہ دیکھئے۔ بندہ جانے اور اللہ جانے۔ صرف نصیحت ہوسکتی ہے، ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے ، دل میں برا کہاجا سکتا ہے، لیکن مہر نہیں لگا ئی جاسکتی۔ کیا پتا، وہ توبہ کرکے بخشا جائے اور جو فتویٰ لگانے والا ہے، وہ رہ جائے۔
(قاسم علی شاہ کی کتاب انچی اڑان سے ماخذ)