Friday, October 23, 2020

جو چاہئے سو مانگیے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،
وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی، وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے، مسافر سمجھ کر خدمت کی، بادشاہ بہت خوش ہوا، جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہو کہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا،
 کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ، تو وہ دیہاتی بڑے میاں محل کے دروازے پر پہنچے، کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی، کہنے لگا نہیں مل سکتے، مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہو اُسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے، چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا، اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے، پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے تھوڑی دورچلاگیا،
 جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراً لے کر آو وہ ہمارا محسن ہے، واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ، تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔*
*یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہو یا چھوٹی ٬اس کا سوال صرف اللہ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔

مہمانداری اور ظرف

عرب کے لوگ قافلوں اور مسافروں کو لوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے اور راہ گزرتے لوگوں کو لوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ...

انہی وقتوں کی بات ہے ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُنکی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل یہ قافلہ اُن کے قریب پہنچا، اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا اور تمام سامان لوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے ...

غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی ...

میرے پیارو! اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا انتظام کرنے لگیں اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا، اِس لیے آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی، 
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گُھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسے قسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گُھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا ...

یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ :
" ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی ...؟ "

قافلہ سالار نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ :
" جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں ... "

جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے ہوئے ایک ڈاکو قافلہ سالار سے بولا :
" یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں ...؟ "

قافلہ سالار نے مسکراتے ہوئے کہا :
" برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا ... "

قافلہ سالار کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے :
#تو_پھر_سب_کچھ_جاننے_کے_بعد_بھی_آپ_نے_ہمارے_ساتھ_اتنا_اچھا_سلوک_کیوں_کیا ...؟ "

قافلہ سالار بولا :
" یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپ کے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، اللہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا ... "

عیب اور انکار

#لڑکی_دیکھنے_کے_بعد_ریجیکٹ_نہ_کیجئے

میں ڈاکٹر فاطمہ ہوں کل میں ڈیوٹی پر معمور تھی کہ ایک خودکشی کا ایمر جنسی کیس آ گیا خود کشی کرنے والی لڑکی کا نام منتہیٰ تھا اور میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور گزری زندگی میں پہلی بار اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی ۔۔۔۔
مریضہ حالت بیہوشی میں تھی اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے اسکے والدین تھے والدین بھی ماشاءاللہ بہترین پرسنیلٹی کے مالک تھے مگر اس وقت بیٹی کے عمل نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا رکھا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی پر پیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بے انتہا کا ترس آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لایا گیا آپریٹ کے بعد اس کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور والدین کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے لڑکی کی خیریت کا پتہ چلتے لڑکی کا والد غرباء میں کچھ تقسیم کرنے کے لئیے نکل گیا تو لڑکی کی ماں کو میں نے اپنے آفس میں بلوا لیا ۔۔۔۔۔ 
مختصراً لڑکی کی ماں نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی 

لڑکی کا نام منتہیٰ ہے اور منتہیٰ نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کر رکھی ہے پڑھائی کے بعد تمام والدین کی طرح منتہیٰ کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے اس لئیے انہوں نے منتہیٰ سے اس کی پسند کے متعلق پوچھا تو منتہیٰ نے مشرقی لڑکیوں کی طرح فیصلے کا اختیار ماں باپ کو دے دیا والدین نے منتہیٰ کو کے رشتے کی بات چلائی تو منتہیٰ کو دیکھنے ایک فیملی آئی لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں منتہیٰ کے کمرے میں آئیں کسی نے منتہیٰ سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی کسی نے بولنے اور کسی نے منتہیٰ کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد اجازت لے کر چلے گئیے اور چند دن بعد بنا کوئی بات بتائے رشتے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کے لئیے پہلی بار تھی جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے منتہیٰ کو حوصلہ دیا اور ایک بار پھر منتہیٰ کو دیکھنے کے لئیے فیملی آئی ۔۔۔۔ 
انہوں نے بھی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد منتہیٰ کے ہاتھ سے۔ چائے پینے کی فرمائش کی اور چائے کے بعد اجازت چاہی تین دن انتظار میں رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔ 

اس انکار پر منتہیٰ کے ساتھ ساتھ اس مے والدین بھی اندر ٹوٹ پھوٹ گئیے مگر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر رہے پھر ایک نئی فیملی آئی ۔۔۔ 
اس فیملی کی خواتین کے بیٹھتے ہی منتہیٰ نے ان کے جوتے تک اپنے ہاتھوں سے اتارے وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلوائے  اور پھر چائے پیش کی ۔۔۔۔ 

اس فیملی نے ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ہے ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آئے مہمان کی اتنی خدمت کہاں کرتا ہے 

پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد لوگ رشتے دیکھنے آئے مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر چلے گئے  کل ایک فیملی آئی انہوں نے لڑکی کو باقی ہر لحاظ سے ٹھیک قرار دیا مگر یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ منتہیٰ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک اڑتالیس سالہ بیٹا جس کی اپنی دوکان ہے اس کے لئیے منتہیٰ قبول کر لیتے ہیں  ۔۔۔۔۔ 

اتنا کہتے ہوئے منتہیٰ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی اور کہا آپ بھی تو ماں ہیں سوچیں ماں جتنی بھی مجبور ہو غیروں کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہے ؟

اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی رہی ہے کہتی رہی ہے ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ماں اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ وہ کہتی تھی میرا منحوس سایا میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا  ۔۔۔۔۔ 

میں (ڈاکٹر)  نے منتہیٰ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے میں اس کا والد اور پیچھے وارڈ بوائے داخل ہوا آ کر بتایا کہ منتہیٰ ہوش میں آ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کی ماں بجلی کی تیزی سے وارڈ میں پہنچی منتہیٰ کا سر اٹھا کر سینے لگا کر میں(ڈاکٹر) اور اور منتہیٰ کا والد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے منتہیٰ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگی اور سسکتے ہوئے کہا پاپا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں پاپا آپ نے کیوں بچایا مجھے ؟
مجھے مرنے دیتے میرا منحوس سایا اس گھر سے نکلے گا تو گڑیا کی شادی ہو گی نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑھی پڑھی بوڑھی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ 

منتہیٰ کا باپ چپ چاپ آنسو بہا رہا تھا جب میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو منتہیٰ کو سکون اور انجیکشن دے دیا اور منتہیٰ کے والدین کو لے کر آفس  میں آگئی میں نے منتہیٰ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لئیے مانگ لیا اور منتہیٰ کے والدین کی آنکھیں اچانک برسنے لگیں مگر اس بار آنسو خوشی کے تھے ۔۔۔۔ ۔

میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ قبول کر چکے ہیں ۔۔۔۔

آخر میں آپ لوگوں سے التجا کرتی ہوں آپ شادی عورت سے کر رہے ہوتے ہیں حور سے نہیں خدارا کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی رکھ کر سوچیں میں ڈاکٹر ہونے کی حثیت سے کہتی ہوں اگر عیب کی بنا ریجیکٹ کرنا ہو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہوں مجھ سے دنیا کے کسی بھی فورم پر کوئی بھی بندہ بحث کر لے میں ثابت کر دوں گی مرد میں عیب عورت سے زیادہ ہیں میں ہاتھ جوڑ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر التجا کرتی کسی کو بلا وجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ اللہ کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالیں اللہ آپ کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا  ۔۔۔۔ 
آپ کے نکالے عیب اور انکار لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں 

ٹرینڈ آف سٹیٹس

گریجوایشن کے بعد یو دوران تعلیم ایک اور مسلہ جو خاص طور پر خواتین کو پیش آتا ہے وہ "سٹیٹس" کا۔ہماری بہت ساری طالبات دوران تعلیم ہی "ٹرینڈ آف سٹیٹس" کی دوڑ میں سینکڑوں پریشانیاں مول لےلیتی ہیں اور گریجوایشن کے فوری بعد ہی دھڑام سے گرتی ہیں۔آج کی تحریر میں میرا مرکزی نقطہ طالبات یا گریجوایشن کے بعد"گرلز" کی طرف ہے۔تاہم اس میں لڑکوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
ٹرینڈ آف سٹیٹس کا مطلب ہے وہ ظاہر کرنا یا بتانا جو آپ حقیقت میں نہیں ہوتے یونیورسٹی میں یہ سب چلتا ہے اور بہت سارے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں مثلاً یونیورسٹی میں ہماری ایک دوست تھیں جو ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایسا پیش کرتی تھیں کہ
 "شی بیلانگز ٹو اے ہائ پروفائل فیملی"
پوری ڈگری میں بجائے لیکچر تیار کرنے کے اس کو یہی فکر ہوتی تھی تو کہ آج کون سی ڈریسنگ کرکے اپنی ساتھی فیلوز کو جلانا ہے مگر جیسے ہی ڈگری مکمل ہوئ تو ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ سٹیٹس کی جس دوڑ کا وہ یونیورسٹی میں شکار ہوئ اب وہ اس کے گلے پڑ گیا ہے اور اسے عادت سی ہوگئ ہے چونکہ دوران سٹڈی تو خرچہ گھر سے آتا ہے تو فکر نہیں ہوتی 5 یا دس ہزار اوپر نیچے کرکے کام چلایا جاسکتا ہے مگر ڈگری کے بعد پیسے بند ہوجاتے ہیں اور جاب بھی نہیں ہوتی اس بنا پر اب وہ ہماری دوست مینٹل ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے اور مجھے یہ کہانی سن کر رحم اور افسوس دونوں ہوئے۔
ہمارے نوجوان بھی تقریباً سارے تو نہیں تاہم ایسے ہی بہت سارے ہیں جو اسی کشمکش کا شکار ہوکر کئ پریشانیاں مول لے لیتے ہیں۔
ایک سے ایک بڑھ کے ایک پریشانی جب آپ کو محض 24 سال کی عمر میں لگے گی تو اگلے 20 سال جو مستقبل کی پلاننگز کے ہیں اس میں تو ہمارا زہن باکل ماوف ہوچکا ہوگا وہ سال جس میں آپ نے جاب ڈھونڈنی ہے پھر گھر بسانے کے لیے پلاننگز کرنی ہیں شادی کرنی ہے تو یہ سب چل نہیں سکتا جب کچی عمر میں ہی دوران تعلیم جہاں اتنی پریشانیاں ہوں وہاں فضول پریشانیاں پالنے کی بجائے تھوڑے کو حاصل کرکے شکر ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
بدقسمتی یہ ہے دوران لیکچر بھی ہم ایسی نصیحتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں اور باہر کنٹین پر جب نوجوان یا لڑکیاں مل کر بیٹھی ہوں تو وہاں بھی ایسی باتوں کا کلچر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ تحریر محض تحریر نہیں بلکہ چند الفاظ میں شئیر کردہ وہ تجربات اور آنکھوں دیکھے حال ہیں۔
جھوٹ موٹ کا سٹیٹس درد سر بنتا ہے۔دوران تعلیم جب یونیورسٹی میں ہوں تو وہاں اگر سیکھنے کو بڑھایا جائے چاہے وہ خود اعتمادی ہو، گرومنگ ہو،  مستقبل کی پلاننگز ہو مگر یہاں میں گریڈز کی بات نہیں کروں گا کیونکہ گریڈز کا ٹرینڈ بھی سب سے خطرناک ٹرینڈ ہے۔
شکر اور صبر وہ سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی گرنے نہیں دیتی جس کے دیر پا اثرات ہوتے ہیں ٹرینڈ آف سٹیٹس میں زہنی سکون نہیں کیونکہ ہر اگلے دن اس ٹرینڈ کو جاری رکھنے کے لیے رات کو منصوبہ بندی کرکے سونا پڑتا ہے۔
آپ جینز میں ہوں یا سادہ شلوار قمیض میں کبھی مایوس مت ہوں اور سفر کو خوبصورتی سے جاری رکھیں سادگی وہ گُر ہے جس کو کوئ گرہن نہیں ہاں جب اللہ توفیق دے اور آپ بہترین جگہ پر پہنچ جائیں ضرورت کے مطابق خوب سے خوب پہنیے، زیب تن کیجیے کیونکہ وہ آپ کا حق ہے آپ کی پروفیشنل زندگی ہے
جو ملتا ہے اس کو خوشی سے قبول کیجیے جتنی خوشی محسوس کریں گے اتنے ہی اندر سے پرسکون ہونگے جتنے اندر سے پرسکون ہونگے اتنا ہی تیزی سے سیکھیں گے اور بہت جلدی منزل تک پہنچیں گے ان شاءاللہ

رشتے جب بار بار تکلیف دیں

سوال:  دل سے بندھے رشتے جب بار بار تکلیف دیں تو ان کو ہر بار کیسے معاف کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
فرض کریں کہ آپ کا گھر دو کمروں کا ہے جہاں پر آپ کے ساس سسر نے بھی رہنا ہے ،آپ دونوں میاں بیوی اور بچوں نے بھی رہنا ہے۔آپ تنگی سے زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی سب سے پہلی کوشش ہو گی کہ بڑا گھر لے لیا جائے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب ہمارے دل چھوٹاہو نے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو دل کو بڑا کر لیں ،یہ بڑا سادہ سا جواب ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے امام اعظم حضرت محمد وﷺنے کبھی کسی کی زیادتی یا ظلم کا بدلہ نہیں لیا توہمیں بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے ۔تقلید کا مطلب ہے کہ ایک انسان گیلی زمین پر پاؤں رکھتے ہو ئے خشک قطعہ پر پہنچ جائے تو گیلی زمین پر اس کے قدموں کے نشان پر اپنا پاوں رکھتے ہو ئے آپ بھی وہاں پہنچ جائیں گی ۔اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی زرعی زمین سے بہت اچھی فصل لینا چاہتے ہیں تو زمین پر بہت گہرا ہل چلاتے ہیں ،اس کے بعد بیج ڈالتے ہیں ۔زمین کو گہرائی سے پھاڑتے ہیں بہ ا لفاظ دیگر زمین کو زخمی کرتے ہیں ۔یہ بات سمجھ لیں کہ دِل جب خلق خدا کی باتوں سے زخمی ہو تا ہے تووہاں گھاؤ لگتے ہیں۔رب کے قریب وہی آدمی ہوتا ہے جس کے دل میں گھاؤ زیادہ لگے ہو تے ہیں ۔جتنے بھی ولی اللہ گزرے ہیں کیوں کہ ان کی بیویاں بہت تند خو اور سخت مزاج تھیں تو ان کے دل پر گھاؤ لگتے رہے ،وہ صبر کرتے رہے تو اللہ پاک نے انہیں انعام دیااور اسی لیے وہ اللہ کے قریب ہو گئے۔جب بھی کو ئی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو بس مسکرائیے۔آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ کچھ عرصے میں آپ کے مرید ہو جا ئیں گے ۔

معاشرے میں بہتری کیسے

مچھلی پانی میں پیدا ہوتی ہے اسے کیا معلوم کہ یوں پانی میں رہنا ڈوب کر مرنے کا باعث ہے،
جنات آگ کے بنے ہیں انھیں کیا معلوم کہ آگ جسم کو جلا دیتی ہے،
کیڑے مکوڑے زیر زمین رہتے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں کہ زیر زمین مردے دفن کئے جاتے ہیں،
اسی طرح جب ہم برائی کے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں
تو ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اچھائی کی سفارشات کیا ہیں،
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب ٹی وی پہ کسی اشتہار میں کسی جراثیم کش صابن پر بھروسے کی بات کی جاتی تھی
تو مجھے بڑا عجیب لگتا تھا کہ بھروسا تو صرف اللہ پر ہوتا ہے کسی صابن پر کیونکر بے فکر بھروسا ممکن ہے،
لیکن آج کیونکہ پرورش ہی ٹیلیویژن کے سامنے ہوئی ہے
تو ایسا کوئی بیان محض ایک فقرہ محسوس ہوتا ہے،
آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ جب ابتدا میں ہم نے ڈرامے دیکھنا شروع کئے تھے
تب ہمیں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈرامے کے کئی مراحل پر ناگواری محسوس ہوتی تھی...
لیکن آج کسی صابن کے اشتہار میں
جب ایک خاتون کو نہاتے ہوئے جسم پر صابن لگاتے دکھایا جاتا ہے تو جنبش بھی پیدا نہیں ہوتی
کیونکہ مچھلی کی طرح پانی میں رہ رہ کے ہم یہ بھول چکے ہیں
کہ یوں پانی میں رہنا ڈوبنے کا باعث ہے،
آج فلمی انداز کے نیم برہنہ لباس جب ہم اپنی معصوم بچیوں کو پہناتے ہیں تو درحقیقت ہم اس ناری ماحول کی طرف انھیں لے کے جا رہے ہوتے ہیں جو جسم کو جلا دیتا ہے،
یونیورسٹی میں کسی لڑکی کے ساتھ مل بیٹھنا اب والدین کو بھی برا نہیں لگتا
کیونکہ ہم مینڈک کی طرح گرم پانی میں خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں،
تہذیب جو کسی مذہب اور خطے کا لباس ہوتی ہے اسے ہم تاریخ کی کتابوں میں بند کرتے جا رہے ہیں
ٹیلیویژن کی سکرین سے لے شادی بیاہ اور منگنی کی تقاریب تک ہم ایک جس ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں
یہ ماحول کل تک ہمارے آباؤ اجداد کے سامنے حد درجہ قابل نفرت تھا،
میرے عزیز ہم وطنو، اپنے آپ کو دیکھو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچاو کہیں ہم اس آگ کے تو نہیں بنتے جا رہے جو کل تک ہمیں جلاتی رہی تھی؟
شرم و حیا جو مسلمان کے لیے کئی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے کہیں ہم یہ ڈھال پھینک تو نہیں رہے؟
کہیں ہم وہ بیج تو نہیں بو رہے جس کی جڑیں کل کو ہماری عمارت ہی اکھاڑ پھینکیں گی.... ؟؟؟؟؟
اک چھوٹی سی کوشش اپنی آنکھیں کھولنے کی۔

بیوی اور شوہر

. 👈 *شوہر کا خراب رویہ اور ہر بیوی کے سامنے تین راستے*. 👉

 شوہر کا خراب رویہ دیکھ کر ہر بیوی کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں، اور ہر بیوی ان تین راستوں میں سے کوئ ایک راستہ ضرور چُنتی ہے۔ *اگر شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، اسے وقت نہیں دیتا، موبائل، ٹیلیوژن اور دوستوں میں مصروف رہتا یے، اسے عزت و پیار نہیں دیتا، ہر وقت جھگڑے کرتا ہے، گالیاں دیتا یے، ماں بہن کی باتوں میں آکر بے عزت کرتا ہے، مطلب کسی بھی اعتبار سے بیوی کو راحت کی بجاۓ تکلیف پہنچاتا یے تو اس غلیظ انسان کی بیوی تین راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرتی ہے*"::۔

1- " *پہلا راستہ*" کچھ بیویاں جو ایمان کی کمزور ہوتی ہیں وہ شوہر کے خراب رویہ کو دیکھ کر غیر محرم سے رابطہ بنا لیتی ہیں، پھر اسکے ساتھ اپنے سکھ دکھ شیئر کرنے لگتی ہیں، اور وہ شخص بھی اسکے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی سے پیش آتا ہے، ہمدردی والا یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہوکر دونوں کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، ایسی صورت میں شوہر، بیوی اور اسکا ہمدرد تینوں ہی سخت سزا کے حقدار ٹھہریں گے۔

2- " *دوسرا راستہ*" کچھ بیویاں ایمان کی مظبوط ہوتی ہیں لیکن *ہمت کی کمزور* ہوتی ہیں، اگر انکا شوہر انکے ساتھ خراب رویہ رکھتا ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں تو یہ بیویاں اپنی عزت و آبرو کی تو ہر دم ہر پل حفاظت کرتی ہیں لیکن اندر سے مکمل ٹوٹ جاتی ہیں، انکا ہنسنا رسمی ہوتا ہے، انکا بولنا رسمی ہوتا ہے، انکی مسکراہٹیں رسمی ہوتی ہیں، انکا لوگوں سے ملنا جلنا رسمی ہوتا یے، یہ دن کی روشنی میں اندر ہی اندر گھٹتی ہیں اور رات کے اندھیروں میں خون کے آنسو روتی ہیں، یہ بیویاں زندہ لاش بن کر اپنی زندگی گذارتی ہیں، اور بروز محشر اس عورت کا شوہر اس وقت تک جنت میں داخل نا ہوسکے گا جب تک بیوی کے ایک ایک آنسو کا حساب نا دیدے۔

3- " *تیسرا راستہ*" اس راستے پر چلنے والی بیویوں کا ایمان تو مضبوط ہوتا ہی ہے لیکن یہ *ہمت اور استقلال کی پہاڑ* بھی ثابت ہوتی ہیں، یہ مایوس نہیں ہوتی، اندھیروں میں آنسو نہیں بہاتی، بلکہ فکر کرتی ہیں، بُرے حالات کو انگلی دکھاتے ہوۓ چیلنج کرتی ہیں، پختہ عزم و ارادہ کرتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کو اندھیروں سے نکال کر لاؤں گی، میں انکی خامیوں کو خوبیاں بناؤں گی، میں انکی برایئوں کو اپنی اچھایئوں سے ختم کروں گی، رب تعالی بھی اپنی اس بندی کے عزم و ارادے پر خوشی سے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ *اپنے مقصد کی تکمیل کی صورت میں یہ شوہر کی گالیاں، طنز و طعنے اور ہر کڑوی بات خاموشی سے برداشت کیۓ مسکراہٹ سے جواب دیتی ہیں، شوہر کی طرف سے بدسلوکیوں پر اپنے اچھے اخلاق اور خوبصورت اعمال کو ہتھیار بناتی ہیں، شوہر کے آنے سے پہلے خود کو سجاۓ محبوبہ بن کر سامنے آتی ہیں کہ شوہر کو سکون و راحت پہنچانا فرض ہے*۔ یہ جانتی ہیں کہ شوہر کے والدین کی خدمت فرض نہیں لیکن پھر بھی خود کو ساس سسر میں جھونک دیتی ہیں، انکے آگے پیچھے گھومتی ہے، انکی خدمت کو خود کے لیۓ شرف سمجھتی ہیں تاکہ بذرگوں کی دعاؤں سے انکا گھر بسا رہے، یہ تکیوں میں منہ چھپا کر رونے کی بجاۓ سجدوں میں رونے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ پانچ وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھاۓ آنسو بہا کر رب کے حضور شوہر کی قربت، شوہر کی توجہ، شوہر کا دھیان، شوہر کی محبت کا سوال کرتی ہیں، اتنا ہی نہیں یہ تہجد میں اٹھ کر پھر سے رب کی بارگاہ میں حاضری لگاتی ہیں اور آنکھیں نم کیے اپنی آہ اس رب کے سامنے رکھ کر اپنی خوشیاں مانگتی ہیں، رب تعالی بھی انہیں انکے صبر و ہمت اور مدد واسطے پکارنے پر انہیں مایوس نہیں کرتا، انکی برداشت کی گئ تکالیف پر صبر کا پھل دیتے ہوۓ انکے شوہر کا دل انکی بیویوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ شوہر کا دل بیوی کی محبتوں سے بھر دیتا ہے۔

 *اگر بیوی پہلا راستہ اختیار کرتی ہے تو دنیا میں زلت و رسوائ اور آخرت میں شوہر اور ہمدرد سمیت سخت عذاب کی حقدار ٹھہرے گی*۔

 *اگر بیوی دوسرا راستہ اختیار کرتی یے تو غلیظ شوہر کی وجہ سے اپنا ہی دل جلاتی ہے اپنا ہی خون جلاتی ہے، اپنے آپ کو تکلیف دینے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن اسے اللہ کے یہاں اس صبر اور عزت و آبرو کی حفاظت کا بے تحاشہ اجر ملے گا*۔

 *اگر بیوی تیسرا راستہ اختیار کرتی ہے، شوہر کی بےغیرتی کو خود کے لیۓ چیلنج تصور کیۓ ہمت اور غور و فکر سے کام لیتی ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں تو 80 فیصد بیویاں اللہ کے حکم سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتی ہیں*۔

 لہذا بہنوں سے کہوں گا کہ *کبھی شوہر کی بے رخی سے، بد سلوکیوں سے، برایئوں سے مایوس نا ہونا بلکہ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ اپنے اچھے اخلاق، خوبصورت اعمال اور مدد باری تعالی کے ذریعے اپنے شوہر کی ان برایئوں کو اچھایئوں میں تبدیل کرنا۔ رب تعالی آپ کا مددگار ہوگا*۔.

دوسروں کے عیب نہ ڈھونڈیں

لوگوں کی عاقبت کے حوالے سے ہمیں کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جانے اور وہ بندہ جانے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے، ''وہ شخص جنت میں نہیں جاسکتا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑنا شروع کردیں۔'' دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں اور تو کوئی خامی نہیں پائی جاتی، لیکن یہ خامی پائی جاتی ہے کہ ان کے شر سے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ اصول وضوابط بنائے ہوتے ہیں۔ تعلقات کے احساسات ہوتے ہیں۔ ان کا زبان سے پتا نہیں چلتا، صرف محسوس ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے اندر سے پوچھا جائے تو جواب مل جائے گا۔ یہ گھاٹے کا رویہ ہے۔ کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی بھی شخص اپنی چیز کسی ایسے بینک میں نہیں رکھوانا چاہتا ہے جہاں چوری ہونے کا گمان ہو۔ کوئی ایسی گاڑی نہیں خریدنا چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا لازماً ایکسیڈنٹ ہونا ہے۔ کوئی ایسا کپڑا خریدنا نہیں چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہ پھٹ جائے گا۔ اور کوئی ایسی شادی نہیں کرنا چاہے گا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ اگر کسی کو دوست بنانے کیلئے یہ شرط رکھ د یں کہ اپنے آپ کو تھوڑا ٹھیک کرو تو وہ کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا۔ دوستی کیلئے وہ جیسا بھی ہے، اس کو ویسا ہی قبول کرنا پڑے گا۔ سمجھ دار انسان دوست بنا کر اس پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔
 جو دوسروں میں عیب تلاش کرتا ہے اس کے ماضی میں جا کر دیکھیں تو پتاچلتا ہے کہ یہ رویہ اس میں شروع سے بنا ہوا تھا۔ ویسے یہ رویہ زیادہ تر تنگ دل لوگوں کا ہوتا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے لاشعوری طور پر نقل کیے ہوتے ہیں۔ جس گھر کے بڑے سب سے چھوٹے کے بارے میں احساس کر رہے ہوں تو   اللہ تعالیٰ انھیں بہت نوازتا ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھے بھلے بندے کو چھوٹا کر دیتے ہیں، جبکہ اللہ کے ہاں اس کا مقام بڑا ہوتا ہے۔
ہر انسان اہم ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت جاننے کیلئے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کو دس دن کی چھٹی دے دیں، اوقات یاد آجائے گی۔جو شخص کسی کو قدر نہیں دیتا، وہ خود بے قدرا ہو جاتا ہے۔جب بندہ دوسروں کی قدر کرتا ہے تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی قدر کراتا ہے۔ یہ وہ شے ہے جو دی کہیں جاتی ہے اور ملتی کہیں اور سے ہے۔ ہم بندے کی قدر کرتے ہیں اور اسی سے صلہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی کی قدر کی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی جگہ پر صلہ دیتا ہے جس کی توقع نہیں ہوتی۔ 
رویہ زیادہ تر ریفلیکشن سے بنتا ہے اور یہ زیادہ تر گھروں سے بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منبر سے بنتا ہے۔ تیسرے نمبر پر استادوں سے بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر معاشرے سے بنتا ہے۔ شرعی طور پر لوگ ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن لوگ انھیں سماجی طور پر برا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شخص کی عمر پچاس برس ہے۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب شرعی طور پر وہ ایک لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جس کی عمر اٹھائیس بر س ہے۔ اس کے اس عمل پر پورا معاشرہ باتیں کرے گا۔ لوگ اتنے گندے نہیں ہوتے، لیکن ان کا ذہن بہت گندا ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنے اندر غلاظت تلاش کرتاہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ غلاظت تو میرے ہی اندر ہے۔ جب پتا لگ جائے کہ میرا یہ رویہ غلط زاویہ نظر پر قائم ہے تو پھر جتنی جلدی ممکن ہوسکے، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کیجیے۔ لوگوں کے دلوں کے اندر گھس کر نہ دیکھئے۔ بندہ جانے اور اللہ جانے۔ صرف نصیحت ہوسکتی ہے، ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے ، دل میں برا کہاجا سکتا ہے، لیکن مہر نہیں لگا ئی جاسکتی۔ کیا پتا، وہ توبہ کرکے بخشا جائے اور جو فتویٰ لگانے والا ہے، وہ رہ جائے۔
(قاسم علی شاہ کی کتاب انچی اڑان سے ماخذ)

بیوی کا شوہر سے حسن اخلاق

میں اپنے شوہر کو پچھلے چھ ماہ سے اپنے قریب نہیں آنے دے رہی انیلہ نے فخر سے اپنی دوست کو بتاتے ہوئے کہا وہ میری منتیں کرتے ہیں مجھے اپنے پاس بلاتے ہیں مگر میں حقارت سے انکو دھتکار دیتی ہوں
اچھا کیا وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے؟
ہونہہ انکی جرآت ہے جو مجھ سے اونچی آواز میں بات کریں جینا حرام نہ کر دوں میں انکا۔۔

آج انیلا بستر مرگ پر پڑی ہے موت بھی اس کو قبول نہیں کرتی اس کو کینسر ہو گیا ہے جس جسم کو وہ شوہر سے دور رکھتی تھی آج اسی جسم میں جگہ جگہ گلٹیاں بنی ہیں جو گندے مواد سے بھرتی ہیں اور پھر پھٹ جاتی ہیں شدید بدبو اور تکلیف سے چیختی انیلا موت کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے اسکے شوہر نے بھی اسکو معاف کر دیا ہے وہ ہی اس کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے مگر شاید قدرت اسکو نشان عبرت بنانا چاہتی ہے

یہ سچا واقعہ لاہور کا ہے جب مرد و عورت نکاحِ کرتے ہیں تو وہ صرف دو افراد کا ملاپ نہیں ہوتا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی دکھ تکلیف میں خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اللہ کے احکامات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں پورا کریں گے مگر ھمارے معاشرے میں ہوتا اس کے برعکس ہے ایک دوسرے پر فتح حاصل کی جدو جہد شروع کی جاتی ہے مرد چاہتا ہے عورت اسکے تابع ہو عورت چاہتی ہے کہ اس کی راجدھانی قائم ہو جس میں وہ اکیلی حکومت کرے اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے وہ عورت جس کو شوہر کے بلانے پر نماز تک چھوڑ دینے کا حکم ہے وہ شوہر کے بلانے پر ہونہہ کہہ کر سو جاتی ہے اور بعد میں فخر محسوس کرتی ہے تو ایسی عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ساری رات مسلسل بغیر کسی شرعی عذر کے دوری اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے اس دوران اگر شوہر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس میں بھی برابر کی حصہ دار بننتی ہے اللہ تعالیٰ ایسی عورت پر دنیا میں ہی عذاب نازل فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ ھماری عورتوں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے آمین کیونکہ نکاح دین کو مکمل کرتا ہے شیطان کو غرق کرتا ہے نکاح میاں بیوی کی محبت شیطان کو آگ لگا دیتی ہے. اللہ تعالیٰ ھم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سچی محبت

ایک بار ایسا ہوا کہ ہم میاں بیوی میں چھوٹی سی بات پر لڑائ ہو گئ, گرمیوں کی رات تھی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر سو گئے. آدھی رات کو مجھے پیاس لگی واٹر کولر پاس ہی میز پہ پڑا ہوا تھا میں نے خود اٹھ کر پانی پیا. اچانک میں نے مڑ کے دیکھا تو وہ مجھے غصے سے دیکھ رہی تھی اور بولی کہ آپ نے پانی خود کیوں پیا...؟ میں نے بھی غصے اور اکڑپن سے جواب دیا ہاتھ,پاؤں سلامت ہیں خود پی سکتا ہوں مفلوج نہی ہوں......
وہ قریب آ کر میرا گریبان پکڑ کر بولی کہ ایک بات غور سے سنو لڑائ اپنی جگہ لیکن میں اپنا حق اور خوشی نہیں چھیننے دوں گی. پتہ ہے آپ کو پانی دیتے ہوئے مجھے کتنی خوشی ہوتی بھلے ہی بات چیت بند کیوں نہ ہو لیکن پانی آپ خود نہیں پئیں گے..... اس کی آنکھیں نم اور نازک سرخ تھیں اسے گلے لگایا اور جھگڑا ختم کر دیا.
 اور اب دس سال بعد
 جب رات کو تین بجے پانی پینے کیلیے اٹھتا ہوں تو دیوار پہ لگی اس کی خوبصورت تصویر بھیگ جاتی ہے یا شاید میں اسے بھیگی ہوئ آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور یاد آتا ہے وہ کہتی تھی کہ "محبت" مر نہیں سکتی..
اپنے قریب لوگوں کی زندگی میں ہی قدرکیجئے