Tuesday, October 27, 2020

نصوح کون تھا



دلچسپ تحریر
نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر
 (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو
سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس 
چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،
لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا 
نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،
قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔

آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ 
وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔
بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، 
بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔

جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔

چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔

ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ 
ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے 

نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔

وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا:
اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے  
یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے
یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو،
وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیشیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔ (اخذ مولانا جلال الدین رومی)

سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام اللہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی۔ 
اللہ تعالیہم سب کو توبہ کرنے، اور تا دم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین۔

معاشی حالات

مولانا نے نمازِ جمعہ کا سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک نمازی نے بلند آواز سے مولانا صاحب سے گزارش کی کہ مہربانی فرما کر پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کیلئے بھی دعا فرما دیں..
‏مولانا صاحب نے نظر بھر کر نمازیوں کی طرف دیکھا اور کہا اس سے پہلے ایک ضروری اعلان ہے، مولانا صاحب نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے کہ کسی کے تین‏ ہزار روپے گرے ہیں جس کے ہوں وہ نشانی بتا کر لے سکتا ہے اس کے بعد دعا ہوگی اسکے ساتھ فوراً ہی 5 نمازی کھڑے ہوگئے۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ یہ پیسے مجھے میری بیوی نے دیئے ہیں سودا سلف لانے کے لئے آپ سب تشریف رکھیں اور دوسروں کو ٹوپیاں پہنانے سے باز آ جائیں.. پاکستان کے معاشی حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

Sunday, October 25, 2020

اپنی انفرادیت

اپنے آپ کو اٹھائیے

گرنے کے بعد لوگ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ خود کو جھاڑتے کیوں نہیں؟ پچھلے بیس سالوں میں اس ایک سوال نے مجھے جستجو اور تحقیق کی نئی دنیاؤں سے ملوایا ہے۔ 

لیڈرشپ کوچ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ بغیر لگی لپٹی کے اپنا پورا سچ آپ کو بتا دیتے ہیں۔

میری طرح آپ نے اپنے آس پاس ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے جو درجنوں پنچ کھا کے، گرکے، بار بار اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں زندگی نے ایک آدھ پنچ مارا اور آج کئی سال بعد بھی وہ وہیں مُنہ کے بل گرے پڑے ہیں۔ 

میری بیس سالہ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ لوگ گرنے کے بعد بہت ساری خود ساختہ دلیلیں دے کے خود کو  قائل کر لیتے ہیں کہ پھر سے اُٹھ کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ایک بار گرنے کو حتمی ہار سمجھ لیتے ہیں۔ 

بہت سے لوگ گرنے کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔ 

ہم میں سے کچھ لوگ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم تو گرے ہی نہیں ہیں۔ 

کئی میرے جیسے سمجھتے ہیں کہ اُنہیں جان بوجھ کے گرایا گیا ہے لہذا وہ احتجاجاً وہیں پڑے رہتے ہیں۔ 

کچھ لوگ پڑے پڑے کسی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جو ہاتھ تھام کے اُنہیں اُٹھائے گا۔ 

بعض لوگ اس معجزے کا انتظار کرتے ہیں کہ ابھی کوئی آ کے اُنہیں اس ڈراؤنے خواب سے جگائے گا یہ کہہ کر کہ یہ تو "ٹرائی بال" تھی۔ ابھی تو میچ شروع ہی نہیں ہوا۔ 

کئی ایسے بھی ہیں جو  مزید مُکے پڑنے سے بچنے کے لئے وہیں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

کچھ لوگ اُٹھنے کی سکت رکھتے ہوتے ہیں لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا پنچ اتنا موثر نہیں ہوگا۔ ایک اور پنچ کھا کے دوبارہ یہیں واپس آنے سے بہتر ہے کہ اُٹھاہی نہ جائے۔ 

آپ کا جو بھی بہانہ ہے۔ آپ نے جو بھی بتا کے خود کو پڑے رہنے کے لئے قائل کیا ہے۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں۔ میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے۔

اپنی طرف ہاتھ بڑھائیے۔ خود کو اُٹھائیے۔ اپنے دل و دماغ سے اس عارضی شکست کی گرد کو جھاڑ دیجئے۔ اور نئے ولولے کے ساتھ، نئی لگن کے ساتھ، نئی اُمید کے ساتھ محمد علی کی طرح اگلے راؤنڈ کی تیاری میں لگ جائیے۔

قیصر عباس 
مصنف:  کامیابی مبارک

انسان اور اللّٰہ سے بندگی

سوال: انسان رب تعالی کے ساتھ بندگی کیسے قائم کر سکتا ہے ؟
سرفراز شاہ صاحب 
انسان لالچ ، ڈر یا پھر محبت کی وجوہات کی بنا پر حکم کی تعمیل کرتا ہے ۔وہ لوگ جو نوکر پیشہ ہیں وہ اس بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ فرض کریں جون کے مہینے میں آپ کا باس آفس ٹائمنگ ختم ہو نے سے ایک گھنٹہ پہلے ایسا کام دے دے جو کہ چار پانچ گھنٹوں میں ختم ہو گا تو آپ بہانے بنائیں گے کہ اس فائل سے متعلقہ فائل تو جس کے پاس تھی وہ تو جا چکا ہے یا اس طرح کوئی اور بہانہ ،حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ میری ترقی باس کی سفارش پر ہو گی ۔آپ کے دِل میں اگر چہ یہ لالچ ہوگی لیکن آپ یہ کام اگلے دن پر ڈال دیں گے ۔اس کے بعد جب آپ گرمی سے نڈھال گھر پہنچیں گے تو چھوٹا بچہ ٹانگوں سے لپٹ کر کہے گا کہ اسے قریبی دوکان سے ٹافیاں لے دو۔تو میں گرمی کی پرواہ نہ کرتے ہو ئے آپ اس کے ساتھ دوکان پر جاکر ٹافیاں لے دیں گے اور اس کی خوشی دیکھ کر آپ بھی خوش ہوجائیں گے۔
بچے کی فرمائش پوری کرنے میں بڑا کردار اس محبت کا ہے جو آپ کا ا س کے ساتھ ہے۔
میری گزارش ہے کہ رب تعالی کے ساتھ تعلق ڈر ،خوف یا لا لچ کا بنانے کی بجائے محبت اور عشق کا بنائیں ۔اس سے ہم اللہ کے احکام سے روگردانی نہیں کر پائیں گے ۔جب رب تعالی سے رشتہ جڑ جاتا ہے توا س کی تعمیل ہو تی چلی جاتی ہے ۔بندگی یہ نہیں کہ اس کے احکام کی تعمیل کریں بلکہ اس کا چھوٹا سا چھوٹا حکم بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہو اور اس کی تعمیل ہو تی رہی یہ بندگی ہے ۔

مقبولیت اور شہرت کا کیڑا

مقبولیت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
شہرت کا کیڑا ذہن سے نکال دیں۔
آپ ہر دل عزیز ہیں، یہ کیڑا ذہن سے نکال دیں
آپ اہم ہیں۔۔۔ یہ کیڑا بھی ذہن سے نکال دیں
ناموری اور سماجی مقام و مرتبہ کے کیڑے چن چن کر ذہن سے نکال دیں۔

آپ جتنے بھی مشہور و مقبول، اہم یا ہردلعزیز ہیں، ۔۔۔۔۔۔ چند مہینے یا چند سال دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو کر دیکھ لیجئے۔۔۔۔۔ آپ کے چودہ طبق ضرور روشن ہو جائیں گے۔ زمانے کا کارواں، رواں دواں ہے اور وہ آپ کے بغیر بھی رواں دواں رہے گا۔

آپ اہم نہیں، آپ کا کام اہم ہے۔ 

اہمیت اس علم کی ہے جو آپ نے دنیا کو دیا۔ 
اہمیت اس نقطہ نظر اور رائے کی ہے جس کے مثبت اثرات زمانے پر ثبت ہوئے۔ 
اہمیت اس رہنمائی کی ہے جو آپ نے کسی کو منزل تک پہنچانے میں کی۔ 
اہمیت اس کوشش کی ہے جو آپ نے عصرِ رواں کی تابناکی بڑھانے میں کی۔ 
اہمیت اس دِیئے کی ہے جو آپ نے جہالت کی تاریک راہوں میں روشن کیا۔ 
اہمیت ان الفاظ کی ہے جو آپ کے قلم سے نکل کر کسی کی زندگی کو جگمگا گئے۔

سو، جانے دیجئے اس بات کو کہ زمانہ آپ کو یاد رکھتا ہے یا نہیں۔ آپ کو سراہتا ہے یا نہیں۔ 

صرف اس عہد کو یاد رکھئے جو آپ نے اپنے قلم سے کِیا ہے کہ یہ اٹھے گا تو صرف سچائی کے لئے۔۔۔۔۔ یہ چلے گا تو اس لئے کہ زمانے کی اقدار کو بلند تر کرے اور نسلِ نو کے دلوں میں علم سے محبت کی شمع روشن کرے۔
ڈاکٹر یونس خان

اصل زندگی


دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف *"کرسڈا روڈریگز"* نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے جسمیں اس نے اصل زندگی اور موت کی حقیقت واضح کی ہے
1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔
2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے ، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔
3. بینک میں کافی رقم ہے۔ لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
 4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔
5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جا سکتی ہوں ۔ لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔
6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹو گراف دیے ۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹو گراف ہے۔
 7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔
8. نجی جیٹ پر ، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
9. اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے ، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔
    یہ گھر ، یہ کار ، یہ جیٹ ، یہ فرنیچر ، بہت سارے بینک اکاؤنٹس ، اتنی ساکھ اور شہرت ، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔
    بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے اور موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

اہل اللّٰہ کی مجالس


جنید بغدادی ؒ کے زمانے میں ایک بہت مشہور ڈاکو تھا، وہ ڈاکہ زنی سے باز نہیں آتا تھا یہاں تک کہ کئی مرتبہ پکڑا گیا ،قاضی اسے ہر بار پکڑے جانے پر کبھی 100، کبھی 200، کبھی 300دروں کی سزا دیتے، اسے اس وقت تک 16ہزار درے لگ چکے تھے مگر وہ اس قبیح فعل سے باز نہیں آتا تھا حتیٰ کہ اس کا ایک ہاتھ بھی کاـٹ دیا گیا مگر وہ باز نہ آیا اور اپنےایک ہاتھ سے ہی چوری اور ڈاکہ زنی کرتا رہا.لوگ اس سے بہت خوفزدہ رہتے ، کوئی اس کے سامنے جانے کی جرأت نہ کرتا.

ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ڈاکو جنید بغدادیؒ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہو گیا.حضرت جنید بغدادیؒ نے تجارت کی غرض سے کچھ کپڑے اور دیگر اشیا منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور انہیں دو تین گٹھڑیوں میں باندھ رکھا تھا. مشہور ڈاکو جب دیوار کود کر گھر میں داخل ہوا تو اسے وہ سامان
جو گٹھڑیوں میں بندھا پڑا تھا نظر آگیا . وہ ایک ہاتھ ہونے کے باعث ان کو اٹھا کر لے جانے سے قاصر تھا اور ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کسی کو اس سامان کو اٹھا لے جانے کیلئے مدد کیلئے لایا جائے کہ اسی اثنا میں حضرت جنید بغدادی ؒ نماز تہجد کیلئے نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائے.ڈاکو کی نظر آپ پر پڑی اور اس نے سمجھا کہ شاید یہ اس گھر کا کوئی نوکر ہے جو مالکوں کے بیدار ہونے سے قبل گھر کے کام کیلئے بیدار ہوا ہے.اس نے حضرت جنید بغدادیؒ کو نہایت سخت آواز میں اپنے پاس بلایا''ادھر آئو! اور یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے سر پر رکھو''حضرت جنید بغدادیؒ اس کی جانب بڑھے اور گٹھڑی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دی. اس نے جب دیکھا کہ گھر کا ایک نوکر اس کے رعب میں آچکا ہے اور اس کے احکامات کی جوں کے توں تعمیل کر رہا ہے تو اس نے بجائے اپنے سر پر گٹھڑیاٹھوانے کے حضرت جنید بغدادیؒ کے سر پر گٹھڑی اٹھوانے کا ارادہ کیا اور انہیں اسی سخت لہجے میں حکم دیا کہ ''میرے سر پر یہ گٹھڑی نہ رکھو بلکہ اپنے سر پررکھو''. حضرت جنید بغدادیؒ آمادہ ہو گئے ، اس نے اپنے ایک ہاتھ سے گٹھڑی آپؒ کے سر پر رکھنے میں مدد کی ، جب آپؒ نے گٹھڑی سر پر اٹھا لی تو اس نے حکم دیا کہ'' جلدی کرو اور میرے ساتھ چلو ،فجر ہونیوالی ہےاور سورج کی روشنی ہو جائے گی اس سے پہلے پہلے تم نے یہ گٹھڑی میری مطلوبہ جگہ تک چھوڑ کر آنی ہے اور اگر تم نے دیر کی تو میں ڈنڈے سے تمہاری مرمت کروں گا''.
حضرت جنید بغدادیؒ اپنا مال اپنے سر پر رکھ کر اس کے گھر کی جانب چل پڑے.حضرت جنید بغدادیؒ راستے میں تھک گئے ، وزن زیادہ ہونے کے باعث آپ کا سانس بھی پھول چکا تھا،آپ کی رفتار آہستہ ہو جاتی جس پر وہ بدنام زمانہ ڈاکو آپ کو ڈنڈے سے مارنے لگ جاتا یہاں تک حضرت جنید بغدادیؒ وہ گٹھڑی سر پر اٹھائے اس کے گھر تک پہنچا دیتے ہیں اور گھر واپس آجاتے ہیں.بدنام زمانہ ڈاکو نے ایک دن گزارا، وہ رات کو نہایت اطمینان سے سویا اور اگلی صبح اٹھا . اسے خیال آیا کہ جس گھر میں میں نے گزشتہ روز چوری کی واردات کی ہےاور سامان سرکا اسی گھر کے نوکر کے ذریعے یہاں تک لایا ہوں کہیں وہ میرا راز فاش نہ کردے، مجھے اس سے متعلق خبر رکھنی چاہئے اور چل کے دیکھنا چاہئے کہ آیا وہاں لوگ جمع ہیں یا نہیں اگر تو جمع ہوئے تو یقیناََ اس نوکر نے میرا راز فاش کر دیا ہو گا اور وہ تفتیش کر رہے ہونگے اور اگر وہاں خاموشی ہوئی تو یقیناََ نوکر نے میرے متعلق کسی کو ڈر کے مارے نہیں بتایا ہو گاچنانچہ وہ آپؒ کے گھر کی جانب چل پڑا . وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ لوگ آرہے ہیں اور گھر میں قطار در قطار داخل ہو رہے ہیں.گھر میں داخل ہونے والے افراد حلئے سے نہایت پرہیز گار اور متقی لگ رہے تھے. وہ بڑا حیران ہوا اس نے کسی سے پوچھا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں.اسے بتایا گیا کہ کیا جانتے نہیں کہ یہ گھر ایک بہت بڑے شیخ ، پیر کامل کا ہے.
اس نے استفسار کیا کہ کیا میں ان کو دیکھ سکتا ہے. بتایا گیا کہ ہاں دیکھ سکتے ہو، معلومات دینے والے نے اسے اپنے ساتھ لیا اور گھر میں داخل ہو گیا. اس دوران ڈاکو نے اپنا کٹا ہواہاتھ چھپا لیا کہ کہیں گھر کا نوکر اسے پہچان نہ لے. گھر میں داخل ہو کر اس نے دیکھا کہ وہی نوکر جس سے اس نے گٹھڑی اٹھوائی اور گھر تک مارتا ہوا لے گیا تھا وہ مسندِ ارشاد پر تشریف فرما ہے.معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ حضرت جنید بغدادیؒ ہیں جو ولی کامل ہیں . اس کے دل کی دنیا بدل گئی، آپ کی مجلس میں گناہوں سے توبہ کی اور آپ سے بیعت ہوا. 
روایات میں آتا ہے کہ 
بغداد کا یہ بدنام زمانہ ڈاکو پھر ایسا ہوا کہ حضرت جنید بـغدادیؒ نے اسے اپنی خلافت عطا فرمائی. 

اللہ والوں کی مجلس کا اپنا ہی اثر ہے. کہاں بغداد کا مشہور چور اور ڈاکو اور کہاں جنید بغدادیؒ کا خلیفہ. 
یہ اللہ والوں کی محفل کا اثر تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی اور راہ راست اختیار کی۔"

*_(بحوالہ تذکرہ اولیاء)_*

Saturday, October 24, 2020

سخاوت کی بہترین مثال

بھائی صاحب! مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں..... مجھے شدید ضرورت ہے ، میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے.....اس کا علاج شہد سے ممکن ہے ۔*
*افسوس ! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے.....ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے.....لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑےگا ، ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا تجارتی قافلہ آرہا ہے.....وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں.....مجھے امید ہے ، وہ آپ کی ضرورت کے لیے شہد ضرور دے دیں گے ۔*
*ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کے لیے درخواست کر سکے ۔*
*آخر قافلہ آتا نظر آیا ۔ وہ فوراً اٹھا اور اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔ اس قافلے کے امیر کے بارے میں پوچھا ۔ لوگوں نے ایک خوبصورت اور بارونق چہرے والے شخص کی طرف اشارہ کیا ۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری چھوٹی سی بیٹی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے مجھے تھوڑے سے شہد کی ضرورت ہے ۔*
*انھوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا : جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ، ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں ۔*
*غلام نے یہ سن کر کہا : آقا ! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائےگا ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا : تب پھر دونوں مٹکے انھیں دے دیں ۔*
*یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا : آقا ! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا ۔ اس پر آقا نے کہا : تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو ۔ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کر دیا ۔ وہ ضرورت مندان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا ۔*
*وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا ، یہ شخص کس قدر سخی ہے ، میں نے اس سے تھوڑا سا شہد مانگا ۔ اس نے مجھے دو مٹکے دے دیے ۔ مٹکے ہی نہیں ، وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے ۔*
*اِدھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا : جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے ، دوسرا مٹکا دینے کے لیے کہا تو بھی تم نہیں گئے ، پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے ۔ اس کی کیا وجہ تھی ۔*
*غلام نے جواب دیا : آقا ! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہےگا تو آپ نے دوسرا مٹکا بھی دینے کا حکم فرمایا ، جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا : اونٹ بھی اسے دے دو ۔ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئ اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرما دیں گے ۔ اس لیے میں نے دوڑ لگادی ۔
*اس پر آقا نے کہا : اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو اس غلامی سے آزاد ہو جاتے ۔ یہ تو اور اچھا ہوتا ۔
*جواب میں غلام نے کہا : آقا ! میں آزادی نہیں چاہتا ، اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سیکڑوں غلام مل جائیں گے ، لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملےگا ۔ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں ۔
آپ کو معلوم ہے ۔ یہ آقا کون تھے یہ حضرت عثمان غنیؓ تھے. رضی الله تعالیٰ عنہ

مال ودولت کی حقیقت

"مال ودولت کی حقیقت" اور تعلق مع القرآن۔۔۔

1۔ لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔ اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا، قبر بنوائی، اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گیا ، لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا لیکن لاش نہیں ملی تاکہ اسے اس قبر میں دفن کیا جائے، جو اس نے خود بنائی تھی۔

2۔ برطانیہ کا ایک بہت بڑا مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر" تھا۔ وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی۔ اس نے اپنے عظیم الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم وزر سے بھرا رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہوا۔ دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔اس نے زور زور سے چیخ وپکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔ اس کی عادت یہ تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب رہتا تھا۔ جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔
وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی، اس نے اپنی انگلی کو زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا  "دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"
اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔

*یہ پیغام ہے، ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ* مال و دولت ہی ہر مشکل کاحل ہے اور دنیا کی ہرضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔

*دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب؟ ، کیسے؟ اور کہاں جانا ہے؟*
*انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے، گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر  لوٹتا ہے لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹنا نہیں  ہے۔*

*مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں، نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ سب کو جانا ہے۔*

*ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآنِ مجید سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا کوئی آدمی مرا ہے؟ اس نے کہا، ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔*

*قیدی اس لئے قرآنِ مجید مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔

* مریض ہسپتال میں اس لئے قرآنِ کریم مانگتا ہے تاکہ الله تعالیٰ اس کے مرض کو دور کرے۔

*  اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا ، کاش میں قرآنِ مجید پڑھتا تو آج میرا غمخوار ہوتا۔

اور آج نہ ہم قیدی ہیں، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تمنا کرے، بلکہ قرآنِ مجید آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، آنکھوں کے سامنے ہے، تو کیا ہم اس بات کا انتظار کریں کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآنِ مجید کو طلب کریں؟

اے الله قرآنِ مجید کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش، نفوس کا مددگار، قبر کا ساتھی اور روز محشر میں سفارشی بنا دیں۔ آمین۔ 🤲🏻

"قرآنِ مجید کی قدر کیجئے"