Tuesday, January 16, 2024

بیٹری اور موبائل فون

موبائل فون دور جدید میں ہر انسان کی ضرورت بن گیا ہے خاص کر سفر میں تو لوگ اس کے بغیر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتے تاہم موبائل فون کی یہ خامی ہے کہ لینڈ لائن فون کے برعکس یہ بیٹری سے چلتا ہے جو کچھ دیر استعمال کے بعد ختم ہوجاتی ہے چنانچہ اسے چارج کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے

ایسا بھی ہوتا ہے

چند سال پہلے  قریبی دوست جو کہ اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا ہے کے پاس ایک مطلقہ لڑکی کا نکاح کے لئے رشتہ پہنچا جبکہ دوست ابھی تک کنوارہ تھا
رشتے جن کے تعلق سے دوست نے  اپنے والد صاحب سے جب بات کی تو وہ پہلے کافی دیر خاموش رہے ظاہر سی بات ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی کے تعلق سے ان کے دل میں بھی کئی ارمان رہے ہوں گے کافی دیر خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ کیا واقعی تم یہ نکاح کرنا چاہتے ہو؟
دوست نے اثبات میں  جواب دیا
تب دوست کے والد نے اجازت دینے سے قبل اپنے بیٹے سے تین باتیں کہیں جنہیں آپ تین سوال یا شادی کے لئے دوست کے والد کی تین شرائط بھی سمجھ سکتے ہیں جو واقعی سبق آموز ہیں

*پہلی:* اس (لڑکی) کے طلاق شدہ ہونے سے تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟ 
*دوست :* نہیں

*دوسری :* کیا یہ بات تمہارے ذہن میں ہے کہ ایک مطلقہ سے شادی کرکے تم اس پر قطعی کوئی احسان نہیں کر رہے جو بعد میں اسے جتاؤ گے؟  
*دوست :* جی

*تیسری :* اور کیا مجھ سے اس بات کا وعدہ کرتے ہو کہ شادی کے بعد کبھی بھی تم اس (لڑکی) کے ماضی کو بھیدنے ٹٹولنے کی کوشش نہیں کروگے
*دوست :* جی 

جہاں مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کرنا معاشرے کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے وہی ایسے نکاح کے معاملوں میں ویسی سمجھداری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے جو دوست کے والد نے بتائی تاکہ یہ باتیں بعد میں مسائل کا باعث نہ بنیں 

عورت پردہ کیوں کرے؟

کہتے ہیں قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں ایک سوار عمر رسیدہ شخص کی عمر کم از کم ساٹھ تو ہو گی اور اوپر سے اس کی وضع قطع اور لباس، ہر زاویے سے دیہاتی مگر جہاندیدہ اور سمجھدار بندہ لگتا تھا۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان جوڑا سوار ہوا جو اس بوڑھے کے سامنے والی نشست پر آن بیٹھا۔ صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ لڑکی نے انتہائی نامناسب لباس برمودہ پینٹس کے ساتھ ایک بغیر بازؤں کی کھلے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی جس سے اس کے شانے ہی نہیں اور بھی بہت سارا جسم دعوت نظارہ بنا ہوا تھا۔

مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی اچھوتا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایسے لباس پہنی کسی لڑکی کو شوہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خاوند کی حیرت دید کے قابل تھی کہ اس بوڑھے نے لڑکی کو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔

چہرے سے اتنا پروقار اور محترم نظر آنے والے شخص کی حرکتیں اتنی اوچھی، بوڑھے کی نظریں تھیں کہ کبھی لڑکی کے شانوں پر تو کبھی لڑکی کی عریاں ٹانگوں پر۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ بوڑھے نے اب تو باقاعدہ اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی ہتھیلیاں ٹیک کر گویا منظر سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا تھا۔

بوڑھے کی ان حرکات سے جہاں لڑکی بے چین پہلو پر پہلو بدل رہی تھی وہیں لڑکا بھی غصے سے تلملا رہا تھا، بالآخر اس نے پھٹتے ہوئے کہا: بڑے میاں، کچھ تو حیا کرو، شرم آنی چاہئے تمہیں، اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو، اپنا منہ دوسری طرف کرو اور میری بیوی کو سکون سے بیٹھنے دو۔

بوڑھے دیہاتی نے لڑکے کی بات تحمل سے سنی اور متانت سے جواب دیا: لڑکے، میں نہ تو جواباً تجھے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تو خود کچھ شرم و حیا کر۔ نہ ہی تجھے یہ کہوں گا کہ تجھے اپنی بیوی کو ایسا لباس پہناتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تو ایک آزاد انسان ہے، بھلے ننگا گھوم اور ساتھ اپنی بیوی کو بھی گھما لیکن میں تجھے ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں، کیا تو نے اپنی بیوی کو ایسا لباس اس لئے نہیں پہنایا کہ ہم اسے دیکھیں۔ آگر تیرا منشا ایسا تھا تو پھر کاہے کا غصہ اور کس بات کی تلملاہٹ؟

بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ دیکھ میرے بیٹے، تیری بیوی کا جتنا ایک جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے کہ تو دیکھ مگر اس کا جتنا ایک جسم کھلا ہوا ہے اس پر تو ہم سب کا حق بنتا ہے کہ ہم دیکھیں اور اگر تجھے میرا اتنا قریب ہو کر تیری بیوی کو دیکھنا برا لگا ہے تو میرا نہیں میری نظر کا قصور ہے جو کمزور ہے اور مجھے دیکھنے کیلئے نزدیک ہونا پڑتا ہے۔

بوڑھے کی باتیں نہیں اچھا درس تھا مگر ذرا ہٹ کر، لوگوں نے جان لیا تھا کہ بوڑھا اپنا پیغام اس جوڑے تک پہنچا چکا ہے۔ لڑکی کا چہرہ آگر شرم سے سرخ ہو رہا تھا تو لڑکا منہ چھپائے چلتی گاڑی سے اترنے پر آمادہ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی، اگلے اسٹیشن پر لڑکے نے جب گاڑی سے اترنے کیلئے باہر کی طرف لپکنا چاہا تو بوڑھے نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا؛ بیٹے ہمارے دیہات میں درخت پتوں سے ڈھکے رہیں تو ٹھیک، ورنہ آگر کسی درخت سے پتے گر یا جھڑک جائیں تو ہم اسے کلہاڑی سے کاٹ کر تنور میں ڈال دیا کرتے ہیں....

التماسِ دعا:
اَللّٰهُمَّ صَلِ٘ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔ 
اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّد ٍوَّعَلٰی آلِ مُحَّمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔

Wednesday, January 10, 2024

توقـــعات کی حـــد

ایک رات کا ذکر ہے ، دکاندار دکان بند کرنے ہی والا تھاکہ
ایک کتا دکان میں گھس آیا۔
اس کے منہ میں ایک تھیلا دبا ہوا تھا۔ اس نے وہ تھیلا دکاندار کی جانب بڑھایا۔ دکاندار سمجھ گیا کہ وہ اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دکاندار نے تھیلا کھولا تو تھیلے میں خریدی جانی والی اشیاء کی فہرست اور رقم موجود تھی۔ دکاندار نے پیسے لیے اور مطلوبہ سامان تھیلے میں رکھ دیا۔
کتے نےفوراً سامان کا تھیلا اٹھایا اور چلا گیا۔ دکاندار کتے کے افعال سے بہت حیران ہوا اور یہ جاننے کے لیے کہ اس کا مالک کون ہے اس نے کتے کا پیچھا کرنے کی ٹھانی ۔
کتا بس اسٹاپ پر پہنچا اور بس کی آمد کا انتظار کر نے لگا۔ کچھ دیر بعد ایک بس آئی اور کتا بس میں چڑھ گیا۔ جیسے ہی کنڈکٹر نزدیک آیا، وہ اپنی گردن کا پٹہ دکھانے کے لیے آگے بڑھا جس میں کرایہ اور پتا دونوں ہی موجود تھے ۔ کنڈکٹر نے پیسے لیے اور ٹکٹ دوبارہ گلے میں بندھے پٹے میں ڈال دیا۔
جب وہ منزل پر پہنچا تو کتا سامنے کے دروازے کی طرف گیا اور اپنی دم ہلا کر اشارہ کیا کہ وہ نیچے اترنا چاہتا ہے۔ بس جیسے ہی رکی، وہ نیچے اتر گیا۔ دکاندار ابھی تک اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
کتے نے ٹانگوں سے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کا مالک باہر نکلا اور اسے لاٹھی سے بری طرح مارنے لگا۔
حیران و پریشاں ہو کر دکاندار نے اس سے پوچھا کہ "تم کتے کو کیوں مار رہے ہو؟"
جس پر مالک نے جواب دیا، "اس نے میری نیند میں خلل ڈالا، یہ چابیاں اپنے ساتھ بھی تو لے جا سکتا تھا !"
یہی زندگی کی سچائی ہے۔ لوگوں کی آپ سے توقعات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جس لمحے آپ غلط ہوتے ہیں، وہ آپ کی غلطیاں گنوانے لگتے ہیں۔ ماضی میں کیے گئے تمام اچھے کام بھول جاتے ہیں۔اک ذرا سی غلطی پھر بڑھ کر رائی سے پہاڑ بن جاتی ہے۔
یہی اس مادی دنیا کی فطرت ہے.!

میں خود تمہارے پاس چل کر آوں گا

ایک عابد نے خدا کی زیارت (دیدار و ملاقات) کے لیے 40 دن کا چلہ کیا ۔ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا۔ اعتکاف کی وجہ سے خدا کی مخلوق سے یکسرجدا  تھا اور اسکا سارا وقت آہ و زاری اور راز و نیاز میں گذرتا تھا 
36 ویں رات اس عابد نے ایک آواز سنی : شام کو ‏تانبے کے بازار میں فلاں تانبہ ساز کی دکان پر جاؤ اوراپنی مراد پا لو-
عابد وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا اور مارکیٹ کی گلیوں میں تانبہ ساز کی اس  دوکان کو ڈھونڈنے لگا وہ کہتا ہے ۔ "میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو تانبے کی دیگچی پکڑے ہوئے تھی اور اسے ہر تانبہ ساز کو دکھارہی تھی"-
‏اسے وہ بیچنا چاہتی تھی, وہ جس تانبہ ساز کو دیگچی دکھاتی وہ اسے تول کر کہتا 4 ریال  ملیں گے- بڑھیا کہتی  6 ریال میں بیچوں گی- کوئی تانبہ ساز اسے 4 ریال سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھا- آخر کار وہ بڑھیا ایک تانبہ ساز کے پاس پہنچی تانبہ ساز اپنے کام میں مصروف تھا-
‏بڑھیا نے کہا: میں یہ برتن بیچنے کے لیے لائی ہوں اور اسے 6 ریال میں بیچوں گی, کیا آپ 6 ریال دیں گے؟
تانبہ ساز  نے پوچھا صرف 6 ریال میں کیوں؟ بڑھیا نے دل کی بات بتاتے ہوئے کہا: میرا بیٹا بیمار ہے، حکیم نے اسکے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت 6 ریال ہے۔
‏تانبہ ساز نے دیگچی لے کر کہا: ماں یہ دیگچی بہت عمدہ اور قیمتی ہے۔ اگر آپ بیچنا ہی چاہتی ہیں تو میں اسے 30 ریال میں خریدوں گا!!
بوڑھی عورت نے کہا: کیا تم میرا مذاق اڑا رہے ہو؟!!! "کہا ہرگز نہیں،"میں واقعی 30 ریال دوں گا- یہ کہہ کر اس نے برتن لیا اور
‏بوڑھی عورت کے ہاتھ میں 30 ریال رکھ دیئے !!! بوڑھی عورت بہت حیران ہوئی اور دعا دیتی جلدی سے اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔
عابد کہتا ہے میں یہ سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا جب وہ بڑھیا چلی گئی تو میں نے تانبےدوکان والے سے کہا: 
چچا، لگتا ہے آپکو کاروبار نہیں آتا؟!! بازار میں کم و بیش سبھی تانبے والے اس دیگچی کو تولتے تھے اور 4 ریال سے زیادہ کسی نے اسکی قیمت نہیں لگائی۔ اور آپ نے 30 ریال میں اسے خریدا ھے... 
بوڑھے تانبہ ساز نے کہا: 

(میں نے برتن نہیں خریدا,  میں نے اسکے بچے کا نسخہ خریدنے کے لیے اسے پیسے دئیے ہیں, میں نے ایک ہفتے تک اسکےبیمار بچے کی دیکھ بھال کے لئے پیسے دئیے ہیں,  میں نے اسے اس لئے یہ قیمت دی  کہ گھر کا باقی سامان بیچنے کی نوبت نہ آئے) 

 عابد کہتا ہے میں سوچتا اور اسکو دیکھتا رہ گیا... 
 اتنے میں غیبی آواز آئی  ۔۔۔۔۔
‏"چلہ کشی سے کوئی میری زیارت کا شرف  حاصل نہیں کرسکتا , گرنے  والے کوتھامو اور غریب کا ہاتھ پکڑو میں خود تمہارے پاس چل کر آوں گا "۔ 

حکایت شیخ سعدی سے ماخوذ.

Saturday, January 6, 2024

میل کا پتھر

کہتے ہیں کہ کسی کسان کے کھیت میں ایک پتھر کا سخت ٹکڑا نکل آیا جس سے کسان کے کام کاج میں حرج ہونے لگا کبھی وہ اس ٹکڑے سے ٹھوکر کھاکر گر جاتا کبھی ہل چلاتے ہوئے ہل پھنس جاتا کبھی ہل ٹوٹ جاتا اور کبھی جانور گر کر زخمی ہوجاتا
اس نے کئی دفعہ اس ٹکڑے کو نکالنے کا سوچا لیکن پھر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا کہ پتہ نہیں آئس برگ کی طرح کتنا بڑا ٹکڑا ہو؟
میں اکیلا نکال سکوں یا نہیں؟
کہیں کوئی چٹان ہی نہ نکل آئے وغیرہ وغیرہ
وہ سوچتا کہ بعد میں کبھی دوستوں یاروں کی مدد لے کر نکال دوں گا ابھی رہنے دیتا ہوں
مختلف وسوسے اور واہمے اسے کم ہمت بنا دیتے
بقول شاعر: 
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
کئی دفعہ کی ٹھوکروں ٹکروں اور دھکوں کے بعد آخر ایک دن اس نے اس پتھر نما چٹان کو نکالنے کا پکا ارادہ ہی کرلیا
سب دوستوں ساتھیوں اور کسانوں کو سندیسہ بھیجا کہ پھاوڑے بیلچے کلہاڑے گینتیاں اور کدالیں وغیرہ لے کر کھیت میں فلاں وقت تک پہنچ جائیں آج یا تو ہم رہیں گے یا یہ چٹان رہے گی
سب دوست یار اس کا پیغام ملتے ہی اس کی مدد کرنے وقت مقررہ پر اس کے کھیت میں پہنچ گئے
جب سب آ گئے تو کسان نے سب پہلے کدال خود اپنے ہاتھ میں لی اور اس چٹان کے آس پاس جگہ سے کھودنا شروع کیا
پانچ یا چھ ضربیں لگائی ہوں گی کہ پتھر اڑتا ہوا باہر آن پڑا
غور کرنے پر پتہ چلا کہ جسے چٹان سمجھا جارہا تھا وہ تو ایک معمولی سا پتھر تھا جس نے کسان کا جینا دو بھر کیا ہوا تھا
سب دوست کسان کی سادگی نما حماقت پر خوب ہنسے اور اپنے اپنے اوزار اٹھائے واپس گھروں اور کھیتوں کو روانہ ہوئے
یہ صرف ایک کسان کی کہانی نہیں
زندگی کے کھیت کھلیان میں ہم سب کسان ایسے ہی واقع ہوئے ہیں
اپنی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو خود ہی بڑھاوا دے کر چٹان کی طرح بڑی مصیبت بنالیتے ہیں اور پھر دن رات اسی سے ٹھوکریں کھاتے زندگی اجیرن کر لیتے ہیں

کبھی معمولی رنجشوں کو وبال جان بنا لیتے ہیں
کبھی کوئی معمولی جھگڑا سوہان روح بن جاتا ہے
کبھی چند پیسوں کی ٹھیکریاں شاہراہ حیات کی ٹھوکر ثابت ہوتی ہیں
کبھی کاروباری نقصان ملازمتی تنزلی رشتوں ناطوں کی بے وقعتی ہمیں کامیابی کی راہ میں حائل چٹان محسوس ہوتی ہے
کبھی سیاسی اور مسلکی اختلافات کے پتھر ہمیں معاشرتی تعلقات کے درمیان چٹان کی مانند محسوس ہوتے ہیں
لیکن یاد رکھیں! یہ چٹان نما پتھر آپ کے باشعور حوصلے ہمت عزم اور یقین کی دو چار ضربیں بھی نہیں سہہ سکتے
آپ کا یقین اس کائنات کی بہت بڑی طاقت ہے آپ کو اپنے شعور اور یقین کی طاقت کا احساس نہیں
جس دن آپ کو احساس ہوگیا اس دن آپ کے سامنے کوئی چٹان چٹان رہے گی اور نہ کوئی پہاڑ پہاڑ
کوئی مسئلہ مسئلہ رہے گا اور نہ کو مشکل مشکل
ساری چٹانیں سارے پہاڑ ساری مشکلات اور مسائل آپ کے قدموں کے نیچے ہوں گے اور آپ ان سب کو فتح کر چکے ہوں گے
بات صرف شعور یقین اور حوصلے کی ہے

دُکھیا سب سنسار

بیوی نے خاوند کو الوداع کہا۔ جہاز اُڑا۔ خیال نے رِفعتوں کو چھُوا۔ حوصلے بُلند ہوئے۔ یہ سفر آسُودگی کی نوید تھا۔ خاوند کو نوکری مل گئی تھی۔ وطن سے دُور'دیارِ غیر میں۔ تنخواہ ڈالروں میں تھی۔ دِن گُزرتے ہی گئے۔ بیوی اِنتظار کرتی رہی۔ خاوند کا نہیں'اُس کے بھیجے ہوئے پیسوں کا۔ پیسے ملے۔ بہت سے پیسے ملے۔ مکان سجا۔

فانوس لگے۔ روشنی ہوئی۔ مہمان آئے ۔ کھانے پکے۔ رونقیں ہوئیں۔ بس صرف گھر کا مالک ہی گھر میں نہ تھا۔ وہ بیچارہ پردیسی 'دیس میں ہونے والی رونقوں کو کیا جانے! کچھ دِنوں کے بعدد ونوں ہی دُکھی تھے۔ تنہائی کا زہر اُن کے وجود میں اثر کر رہا تھا۔ چراغ جلتے ہی رہے اور دِل بجھتے ہی رہے۔ اِس دُکھ کا کیا علاج۔ وطن میں رہو تو مال نہیں، مال ملے تو وطن نہیں۔

عجب صورتِ حال ہے۔ دُکھوں سے بچنے کے لیے کوشش کرنے والے ایک نئے دُکھ کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ 

کیا زندگی میں دُکھ کا ہونا لازمی ہے؟ کیا زندگی دُکھ ہی کا نام ہے؟ اِس کائنات میں' اِنسانوں کی کائنات میں کوئی بھی تو نہیں' جس کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوں۔ آج کا اِنسان بہت دُکھی ہے۔ وہ اندر سے ٹُوٹ رہا ہے۔ اُس کا ظاہر بے خراش بھی ہو' تو بھی اُس کا باطن قاش قاش ہوتا ہے۔

آرزوؤں کی کثرت نے انسان کو دُکھی کر رکھا ہے۔ کثرت ہمیشہ دُکھی کرتی ہے۔ ایک خواہش پوری ہو' تو دوسری پوری نہیں ہوتی۔ خوشی کا ایک لمحہ' غم اور اندیشوں کے لمحات کو جنم دیتا ہے۔ ایک حاصل میں کتنی ہی محرومیاں چھُپی ہوتی ہیں۔ اِنسان جو کچھ بھی ہوتا ہے' اُس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور انسان فطرتاً اپنے علاوہ کچھ اور ہونا چاہتا ہے۔

دُنیا اُسے ایک نام، ایک صفت سے پکارنے لگ جائے' تو وہ خواہش کرتا ہے کہ لوگ اُسے دوسرے نام، دوسری صفت کے حوالے سے پکاریں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ پس وہ دُکھی ہو جاتا ہے۔ 

ہر انسان چاہتا ہے کہ اُسے چاہا جائے، اُسے پسند کیا جائے۔ لیکن کیوں؟ اِسی" کیوں" سے ہی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ لوگ اپنے علاوہ کسی کو پسند نہیں کر سکتے اور خود پسندی کی عادت بھی خود گُریزی کی علامت ہے۔

اِنسان خود کو بھی ہمیشہ کے لیے پسند نہیں کر سکتا۔ پس اِنسان دُکھی رہتا ہے۔ 

انسان کثرتِ مال اور کثرتِ اولاد کو خوشی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ لیکن کثرتِ مال' محض وبال ہے اور کثرتِ اولاد' اکثر اِنسان کے لیے دُکھ کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔ اولاد کی آرزُو اور اولاد کی پرورش کی تمنّا اور پھر اولاد کی اپنی آرزوئیں اِنسان کے لیے ایک عجب مصیبت ہیں۔

اولاد مودٴب نہ ہو تو ایک عذاب ہے۔ آج کل اولاد کا مودٴب ہونا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ آج کے بچّے' آج کے اِنسان کے دُکھ کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔ 

ایک آدمی کو دیکھا گیا کہ وہ کسی خانقا ہ پر جا کر زور زور سے دُعا مانگ رہا تھا کہ "اے اللہ! تُو نے میری وہ دُعا جو سولہ سال پہلے منظور کی تھی' اُسے اب نا منظور فرما دے۔ اے صاحبِ آستانہ بزرگ! تُوبھی آمین کہہ۔

" لوگوں نے کہا "تُو کیا کہہ رہا ہے؟ " تو اُس نے کہا " مَیں منظور شُدہ دُعا کی نا منظوری چاہتا ہوں۔" لوگوں نے تفصیل پوچھی تو اُس نے کہا "آج سے سولہ سال پہلے میں اِسی آستانے پر حاضر ہُوا تھا۔ مَیں نے اللہ کے آگے دُعا کی کہ اِلٰہی! مجھے بیٹا عطا فرما۔ اللہ کی مہربانی اور اِس بزرگ کے وسیلے سے مجھے بیٹا ملا۔ آج وہ جوان ہے اور مَیں کیا بتاؤں کہ اُس بیٹے نے مجھے کِتنا تنگ کر رکھا ہے۔

مختصر یہ کہ مَیں دُعا کرتا ہوں کہ میری قدیم منظور شُدہ دُعا کو نا منظور فرما لے میرے اللہ!" 

اِنسان کبھی راضی نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ خوشی کی تلاش کرتا ہے اور اُسے کسی نہ کسی طرح غم سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے اور مجبوری یہ ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ زندگی کے مقدّر میں موت لکھی جا چکی ہے اور اِسی حقیقت کا انکشاف ہی اِنسان کے کرب کی اِبتدا ہے۔

اُس کا حاصل' لا حاصل ہو کے رہ جاتا ہے۔ اُس کی قُوّت' کمزوری بن جاتی ہے۔ اُس کا توانا وجود 'لا غرو ناتواں ہو جاتا ہے۔ اُس کی بینائی کے چراغ مدہم ہو جاتے ہیں۔ اُس کی فِکر مسدود ہو جاتی ہے۔ اُسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُس کے آگے دِیوار ہے' اُس کے پیچھے دِیوار ہے۔ وہ جکڑ کے رکھ دیا گیا ہے۔ وہ بھاگنا چاہتا ہے لیکن… "رستہ اُسے رستہ نہیں دیتا۔

" وہ اپنے گھر میں کچھ عرصہ کے بعد خود کو مہمان سا محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنوں کے ہمراہ چلتا ہے اور چلتے چلتے اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیگانوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ ساتھی بچھڑ جاتے ہیں اور اجنبی ہمراہ ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ بھِیڑ میں تنہا ہو جاتا ہے۔ اُسے کرب اور دُکھ سے بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے نکل جانا چاہتاہے۔ اپنے وجود میں رہنا اُسے نا مُمکن نظر آتا ہے اور وجود سے نکلنا بھی اُتنا ہی نا مُمکن ہوتا ہے۔

نتیجہ دُکھ کے سِوا کیا ہے۔ وہ بے نام دُکھ پر روتا ہے اور رونے سے دُکھ ختم نہیں ہوتا۔ 

ایک آدمی اپنے کسی عزیز کی موت پر رو رہا تھا۔ لوگوں نے کہا "صبر کرو۔ اب رونے سے کیا ہو سکتا ہے۔" اُس نے روتے روتے جواب دیا "بھائیو! رونا تو اِسی بات کا ہے کہ اب رونے کا بھی کچھ فائدہ نہیں۔ مَیں اپنے رائیگاں آنسوؤں پر ہی تو رو رہا ہوں۔ کرب ہی کرب ہے۔

دُکھ ہی دُکھ ہے اور میں…" 

ہم اِس دُنیا سے کچھ لیکر بھاگ جانا چاہتے ہیں' لیکن اِس دُنیا سے کچھ لے کر جا نہیں سکتے۔ بس یہاں سے اُٹھا کر وہاں رکھ سکتے ہیں۔ ہم سب قُلّی ہیں۔ سامان اٹھائے پھرتے ہیں… خیال کا سامان، احساس کا سامان ،مال ، دولت ، وجود۔ اشیا اُٹھائے اُٹھائے پھِرتے ہیں۔ کب تک؟ قُلّی کا سامان کسی اور کا سامان ہوتا ہے۔

قُلّی کے نصیب میں صرف وزن ہے…وزن اور صرف وزن …اور یہ وزن کرب ہے۔ اِس دُنیا میں کچھ بھی کسی کی مِلکیّت نہیں۔ ہمارے دفتر' ہمارے دفتر ہی نہیں ہیں'ہمارے ماتحتوں کے بھی ہیں۔ ہماری بادشاہت' ہماری بادشاہت نہیں۔ یہ مُلک ہماری رعایا کا بھی ہے۔ کوئی کسی کا مالک نہیں۔ 

یہاں جو کچھ ہے' یہیں رہے گا اور اِسے اپنا کہنے والا یہاں نہ ہو گا۔

بڑے کربناک مرحلے ہیں' اِس حیاتِ چند روزہ میں! ہم صرف اپنی مِلکیّت کی مِلکیّت ہیں۔ ہمارے بچّے ہمارے مالک ہیں۔ ہمارا مرتبہ ہمارا بوجھ ہے۔ ہماری رعایا ہماری عاقبت ہے 'بلکہ عبرت ہے۔ ہمارے ماتحت ہماری آزمائش ہیں۔ ہمارے سامنے ہمارے خلاف گواہیاں چل رہی ہیں۔ ہم بڑے روگ میں ہیں۔ ہمارا ہونا 'نہ ہونے تک ہے۔ ہماری ہستی' نیستی ہے۔ ہمارا وجود 'عدم ہے۔

ہمارا دِل' دِلبروں کے توڑنے کے لیے بنا ہے۔ ہماری محبت ہماری قید ہے۔ ہماری نفرت ہمارا عذاب ہے۔ ہمارے اپنے ہمارے سپنے ہیں۔ ہماری آرزو ہماری فریاد ہے۔ ہمارا غُرور ہمارا اپنا مذاق ہے۔ ہم حِصار میں ہیں' آرزوؤں کا حِصار، تمنّاؤں کی زنجیر۔ ہمارا علم ہمارا حجاب ہے۔ ہمارا گھر' خوبصورت لیکن زندان۔ ہم اِسی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے بس میں بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہم آزاد پیدا ہوئے' لیکن پیدا ہونے کی مجبوری کے ساتھ۔ ہماری جوانی' آزاد جوانی 'بُڑھاپے کی مجبوری ہے۔ ہم ریت کی دِیوار ہیں۔ گِرتے رہنا ہمارا مقدّر ہے۔ ہمارے مقدّر میں کرب ہے، دُکھ ہے۔ اِس کرب ِمُسلسل سے نجات 'صرف اور صرف اپنی فنا کو تسلیم کرنا ہے۔ میری زِندگی جس نے عطا کی' وہی اِسے واپس لے لیتا ہے۔ اِس میں میرا کیا دخل ہے۔ کیا مَیں اپنے آپ میں اپنا دخل دینا چھوڑ سکتا ہوں؟ کرب سے نجات کی راہ یہی ہے۔ حکم دینے والے کا حکم زِندگی ہے' تو ہم زِندہ ہیں۔ حکم دینے والا موت کا حکم دے' تو ہم حاضر ہیں۔ افسوس کی بات نہیں' اطاعت کی بات ہے۔ اطاعت اور صرف اطاعت ' دُکھ سے نجات ہے۔ یہاں نہ کچھ کھونا ہے نہ پانا ہے 'یہاں تو صرف آنا ہے اور جانا ہے، دُکھ کِس بات کا!

محنت کی کمائی

 ایک لوہار کا ایک ہی بیٹا تھا ،مگر بہت سست اور کاہل۔سارا دن آواراہ گردی میں ضائع کردیتا۔وقت گزرتا رہا لیکن لوہار کے بیٹے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔جب تک باپ کام کرتا رہا آرام سے گزر بسر ہو تی رہی۔ پھر وقت نے اسے بوڑھا کردیا تو زندگی مشکل سے دوچار ہوئی۔ایک دن لوہار پریشانی کے عالم میں بیوی سے مخاطب ہوا ۔ہم پر لعنت ہے کہ ہم نے ایک ایسا بیٹا جوان کیا جو کسی کام کا نہیں اور کاہل اور نکھٹو ہے۔

Monday, January 1, 2024

تین فطری قوانین

تین فطری قوانین جو کڑوے لیکن حق ہیں 

پہلا: اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جاۓ تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے اسی طرح اگ دماغ کو اچھی فکروں سے نہ بھرا جاۓ تو کج فکری اسے اپنا مسکن بنا

👈 جیسی کرنی ویسی بھرنی

ایک بادشاہ بہت ظالم اور جابر تھا۔ اسکی ہیبت کے قصے سارے ملک میں مشہور تھے، لوگ اس سے نفرت کرتے تھے اور اس کا نام آتے ہی لوگ کانپنے لگتے تھے۔
ایک دن جانے کیا ہوا بادشاہ نے سارے شہر کو مدعو کیا کہ