درختوں میں سب سے خوش نصیب درخت ’’حنانہ‘‘ ہے، جس کا ذکر بخاری شریف میں اجمالاً اور دیگر کئی کتب احادیث میں تفصیلاً مذکور ہے۔ رسول اکرمﷺ کے لیے ایک صحابی نے لکڑی کا منبر بنا کر مسجد نبویﷺ میں رکھ دیا۔ آپﷺ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے اس پر رونق افروز ہوئے تو خشک درخت کا بنا ہوا وہ ستون، جس سے ٹیک لگا کر آپﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے، بلک بلک کر رونے لگا۔
اس کے نالہ وشیون میں اتنا درد تھا کہ مجلس میں موجود تمام صحابہ کرامؓ آبدیدہ ہو گئے۔ آنحضرتﷺ نے جب ستون کی بے قراری ملاحظہ فرمائی تو خطبہ موخر فرما کر اس ستون کے پاس آئے اور اسے سینے سے لپٹا لیا۔ پھر صحابہ کرامؓ سے فرمایا ’’یہ میری جدائی میں گریہ کناں ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں اسے سینے سے لپٹا کر دلاسا نہ دیتا تو یہ قیامت تک اسی طرح میری جدائی کے غم میں روتا رہتا۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے پھر لکڑی کے اس تنے سے پوچھا ’’کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے واپس اسی باغ میں اگا دوں جہاں سے تجھے کاٹا گیا ہے۔ وہاں تجھے ہرا بھرا کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ قیامت تک مشرق و مغرب سے آنے والے اللہ کے دوست حجاج کرام تیرا پھل کھائیں؟‘‘
اس نے عرض کیا: ’’اے پیکرِ رحمتؐ میں تو آپﷺ کے لمحاتی جدائی برداشت نہ کر سکا، قیامت تک کی تنہائی کیسے برداشت کروں گا؟‘‘
آپﷺ نے پوچھا ’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے جنت میں سرسبزو شاداب درخت بنا کر اگادوں اور تو جنت کی بہاروں کے مزے لوٹے؟‘‘
ستون حنانہ نے یہ انعام قبول کر لیا۔ چنانچہ اسے منبر اقدس کے قریب زمین میں دفن کر دیا گیا۔ تدفین کے بعد حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’اس نے دارِفنا پر دارِبقا کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (بخاری شریف، کتاب الجمعہ، سنن دارمی)۔
اس درخت کی یادگار کے طور پر اسی مقام پر ایک ستون استوانہ حنانہ کے نام سے مسجد نبویؐ میں آج بھی موجود ہے۔
منقول ہے کہ جب حضرت حسن بصریؒ یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے ’’اے اللہ کے بندو! لکڑی ہجرِ رسولﷺ میں روتی اور آپﷺ کے دیدار کا اشتیاق رکھتی ہے۔ انسان تو اس سے زیادہ حق رکھتا ہے کہ فِراقِ رسولﷺ میں بے قرار رہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment