ایک چوبیس سال کا لڑکا چلتی ٹرین سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں چِلّاتا هے کہ
دیکهو بابا!! درخت پیچهے رہ گئے هیں ہم بہت تیزی سے آگے جارہے هیں.
باپ اس کی طرف دیکهتا هے اور خوش ہو کر مسکرا دیتا هے.
ایک نوجوان جوڑا بهی چوبیس سال کے لڑکے کے قریب بیٹها ہوتا هے اور غور سے اس کو دیکھ رہا ہوتا هے اور سوچ رہا ہوتا هے کہ اتنا بڑا ہوگیا هے اور کتنی بچگانہ حرکتیں کررہا هے.شاید یہ کوئی زہنی مریض هے جو باپ کو پریشان کر رہا هے.
اچانک سے پهر لڑکا چِلّاتا هے
دیکھو بابا! بادل بهی ہمارے ساتھ ساتھ بهاگ رہے هیں.آخر کار اس جوڑے سے رہا نہ گیا اور لڑکے کے باپ کو کہنے لگے"کہ آپ اپنے بیٹے کو کسی اچهے ماہر نفسیات کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے؟"
بوڑهے آدمی نے مسکرایااور کہا
"کہ ہم ابهی ابهی ڈاکٹر کے پاس سے آرہے هیں لیکن ماہر نفسیات کے پاس سے نہیں.ہم ہسپتال سے واپس آرہے ہیں.میرا بیٹا پیدائشی اندها تھا اس نے آج پہلی دفعہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکها ہے.آج 24 سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکهنے کا موقعہ ملا هے اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہوگا لیکن میرے لیے یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے."
وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے اَن کہے الفاظ اور آنکهوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا هے.اور ان کی خوشی میں شامل ہوتا هے.
۔۔۔۔۔ دنیا میں ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی هے لیکن ہم لوگوں کو بہت جلد ان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں. یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کون هے اور ان کو کیا مسئلہ ہے. اس کہانی کا سچ بهی آپ کے لیے حیران کن ہے دوسروں کی زندگی میں جهانکنے کی بجائے اور رائے دینے کی بجائے اپنی ذندگی پر توجہ دیں. اس واقعے کو پڑھ کے مثبت تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں .۔۔
No comments:
Post a Comment