Monday, May 23, 2022

بے عزتی

کوہی گھر میں چھوٹی سی بات بھی ہو جاتی تو کاشان کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتا .ہر وقت غصہ کی حالت میں رہنا اس کی عادت بن چکی تھی.ماں ,بہن بھاہیوں کے ساتھ سیدھے طریقے سے بات نہ کرنا اس کے روزانہ کا معمول تھا.

کئی بار ماں نے اسے پیار سے سمجھایا کہ بیٹا کاشان خوش رہا کرو ,خوشیوں سے رشتہ پروان چڑھتے ہیں لیکن ماں کی یہ میٹھی میٹھی باتیں سن کر بھی اس کے کانوں میں جوں تک نہ رینگتی تھی.

سب لوگ گھر میں کاشان کی عادات و سکانات سے بہت زیادہ پریشان ہو چکے تھے .

ایک دفعہ گھر میں سب خاموش تھے اس نے سوچا چلو اس خاموشی کو آگ لگاہی جائے اس نے فوراً گھر سے لوٹا اٹھایا اور اس کو دور پھینک دیا .سب گھر سے باہر نکلے تو ماں نے پوچھا 

"بیٹا کاشان یہ آواز کیسی ہے"

کاشان نے شرارت برے لہجے میں جواب دیا

"لوٹا پھینک دیا ہے امی وہ ادھر...آب جائے ادھر سے اٹھا کہ لے آئے"

ماں کاشان کے اس رویے سے بہت تنگ ہو چکی تھی اور اسکی برے طریقے سے بے عزتی کرنا شروع کر دی .

کاشان نے جب دیکھا کہ ماں اسکو برے طریقے سے سنا رہی ہے تو اس نے آپنے چھوٹے بھاہی سے مستی کرتے ہوئے پوچھا 

"یہ کیا کہ رہی ہیں"

آگے سے پھر ماں نے جواب دیا 

"بغیرت انسان اسے بے عزتی کہتے ہیں نالائق"

کاشان زور زور سے ہنسنے لگا اور  کہنے لگا

." یہ بے عزتی کیا ہوتا ہے مجھے نہیں پتہ بے عزتی کیا ہوتی ہے ذرا تفصیل سے سمجھائے"

ماں نے آگے سے جواب دیا

"بیٹا فکر نہ کرو ایک دن آئے گا تمھیں پتہ چل جائے گا کہ "بے عزتی " کسے کہتے ہیں .

(کاشان نے اس بات پہ بھی زور کا قہقاہ لگایا)

کاشان کوہی چھوٹا بچہ نہیں تھا 16 سال کا ایک جوان آدمی تھا اور نزدیکی گورنمنٹ کالج میں بارھویں کلاس کا ایک طالب علم تھا.

وقت گزرتا گیا کاشان کے امتحانات شروع ہوئے .

ایک دن وہ امتحان حال میں بیٹھا پرچہ حل کر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اس کے پاس جو کاپی آئی تھی اس پر اسکا نام نہیں لکھا ہوا تھا بلکہ وہ کسی اور لڑکے کی کاپی تھی جس پر اس نے لکھنا شروع کر دیا تھا .جب سپریڈنٹ اس کے پاس سے گزرا تو اس نے سپریڈنٹ کو بتایا کہ سر یہ کاپی مجھے غلط تھما دی ہے یہ کسی اور کی ہے .ویسے غلطی تو سٹاف کی تھی جنھوں نے ایسا کیا تھا .

سپریڈنٹ بجائے سٹاف کو غصہ کرتا اسنے کاشان کو کھری کھری سنا دی 

"نالائق ,آندھے نظر نہیں آتا تھا کیا یہ کیا کر دیا آواز دیتے جب یہ تمھارے پاس آئی تھی تو"

سپریڈنٹ پندرہ منٹ اسے برا بھلا کہتا رہا .پورا روم کاشان کی طرف دیکھنے لگا .کاشان کے چہرے پر ایک خوف تھا اور لرزہ طاری ہو گیا .

جو ہونا تھا وہ ہو گیا سپریڈنٹ نے فوراً کاپی تبدیل کروہی اور کاشان کو دوسری کاپی دے دی .

کاشان کے چہرے پریشانی کا عالم عیاں تھا .اس سے کچھ لکھنے ہی نہیں ہوتا تھا .وہ پریشانی کی عالم میں کرسی کے ساتھ ٹیگ لگا کہ پیچھے ہو گیا اور اس نے آنکھیں بند کر دی تو اسے ماں کا چہرہ نظر آیا جو کہ اس سے کہ رہی تھی

"بیٹا یہ ہوتی ہے بے عزتی پتہ چلا"

کاشان نے فوراً آنکھ کھولی اور دل میں فریاد کی 

"یا آللہ مجھے معاف فرماء جو میں نے گھر والوں کے ساتھ کیا اسکو یا آللہ معاف فرماء "

کاشان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سپریڈنٹ کاشان کے پاس آیا 

اسے روتا دیکھ کر بغیر وجہ پوچھے اسکو گلے سے لگا لیا اور کاشان سے معافی مانگی .

"بیٹا مجھے معاف کر دو مجھے پتہ ہے تمھاری غلطی نہیں تھی اس میں وہ میں غصہ میں تھا تبھی تمھیں کھری کھری سنا دی"

خیر پرچہ ختم ہوا 

کاشان گھر کی طرف آنے لگا اور اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ تھی اور اس دل و دماغ میں ماں کی بات گھوم رہی تھی کہ 

"بیٹا یہ ہے بے عزتی"

کاشان گھر آیا سلام کیا ,آرام سے بیٹھ کہ کھانا کھایا اور کھیلنے چلا گیا اس کے بعد کاشان نے آج دن تک گھر میں بلا وجہ کسی پہ غصہ نہیں کیا.

تحریر میں کردار "کاشان" صرف خیالی نام تھا باقی سب سچ ہے

لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں آپنے گھر والوں کی بات ماننی چاہیے .بات بات پہ غصہ نہیں کرنا چاہیے .پیار و شفقت سے رہنا چاہیے .

آللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو آمین


No comments:

Post a Comment