ایک بے اولاد بادشاہ جب مرنے لگا تو کسی درویش گوشہ نشین کو اپنا جانشین بنا گیا۔ اس درویش نے جب مال و دولت اور جاہ و حشمت کا مزہ چکھا تو سب درویشی بھول گئی اور پکا دنیا دار بن گیا۔ آس پاس کے بادشاہوں پر فوج کشی کرنےلگا۔ بڑے بڑے بہادر اس سے کانپنے لگے۔ اس کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ جنگجو بہادروں اور سرماؤں کو بھی للکارنے لگا۔
متفرق طور پر کئی دشمنوں کو اس نے زیر کر لیا۔ اور ان کی فوج تباہ کر دی۔
لیکن وہ جمع ہو کر ایک دوسرے کے حلیف بن کر پھر مقابلے میں آ گئے۔
اسے یکبارگی حملہ کر کے اسکا محاصرہ کر لیا اور اس کے قلعے پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کرنے لگے وہاں کوئی اللہ کا ولی بھی رہتا تھا اس کے پاس اس نے پیغام بھیجا
کہ میں لڑائی سے تنگ آ گیا ہوں دشمن مجھے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس لیے دعا کی مدد فرماؤ
اللہ تعالی ان کا شیرازہ بکھیر دے ورنہ بچنے کی کوئی سبیل نہیں,,,!!!
ولی اللہ نے ہنس کر کہا کہ تو اگر پہلے کی طرح آدھی روٹی پر کفایت کرتا رہتا اور بادشاہی کی ہوس نہ کرتا تجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
اس حکایت کا مطلب یہ ہے۔
کہ سلامتی اور بے فکری درویشی میں ہے بادشاہی میں نہیں۔
No comments:
Post a Comment