جب بچہ تھا، تو روزانہ ایک راستے پر چہل قدمی کے لیے جایا کرتا تھا۔
اس راستے میں ایک کمہار کا گھر تھا، جو مٹی کے برتن بنایا کرتا تھا۔ وہ کمہار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور اسے غور سے تکتا رہتا ۔ اسے برتن بننے کا عمل دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا ۔
ایک دن کمہار نے اس کی محویت دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔
" بیٹا ! تم یہاں سے روز گزرتے ہو اور میرے پاس بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہو ۔۔۔۔۔ تم کیا دیکھتے ہو؟"
" میں آپ کو برتن بناتے دیکھتا ہوں اور یہ عمل مجھے بہت اچھا لگتا ہے دیکھنا ۔۔۔۔۔ اس سے میرے ذہن میں چند سوال پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔ "
سقراط کی بات سن کر کمہار بولا ۔
" یہ تو بہت اچھی ہے ۔۔۔۔۔ تم پوچھو ، جو پوچھنا چاہتے ہو؟"
" آپ جو برتن بناتے ہیں ۔۔۔۔ اس کا خاکہ کہاں بنتا ہے ؟"
" اس کا خاکہ سب سے پہلے میرے ذہن میں بنتا ہے۔۔۔۔۔ "
یہ سن کع سقراط جوش سے بولا ۔
" میں سمجھ گیا ۔۔۔۔"
کمہار نے حیرت سے پوچھا ۔
" کیا سمجھے ؟ "
" یہی کہ ہر چیز تخلیق سے پہلے خیال میں بنتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کے خیال میں ہم پہلے بن چکے تھے ، تخلیق بعد میں ہوئے ۔۔۔۔۔ اب میرا اگلا سوال یہ ہے کہ جب آپ برتن بنا رہے ہیں، تو ایسا کیا کرتے ہیں کہ یہ اتنا خوب صورت بنتا ہے ؟ "
" میں اسے محبت سے بناتا ہوں۔ میں جو بھی چیز بناتا ہوں، اسے خلوص سے بناتا ہوں اور اسے بناتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہوں تاکہ کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے ۔ "
سقراط نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
" اس کی بھی سمجھ آ گئی، کیوں کہ بنانے والا ہم سے محبت کرتا ہے ، کیوں کہ اس نے ہمیں بنایا جو ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اگلا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے عرصے سے برتن بنا رہے ہیں ، کوئی ایسی خواہش ہے ، جو آپ چاہتے ہیں کہ پوری ہو ۔ "
" ہاں ! ہے ۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا برتن بناؤں کہ دنیا اش اش کر اٹھے اور پھر ویسا برتن میں کبھی نہ بنا سکوں۔۔۔۔۔" کمہار نے حسرت سے کہا۔
یہ سنتے ہی سقراط اچھل پڑا۔
" واہ ! خالق ہر بار ایسی تخلیق کرتا ہے کہ دنیا بے اختیار اش اش کر اٹھے ، کیوں کہ خالق کو پتا ہے کہ میں جو یہ انسان اس دنیا میں بھیج رہا ہوں ، اس جیسا کوئی اور دوبارہ نہیں آئے گا ۔۔۔۔۔"