Thursday, October 29, 2020

انسانیت کی معراج کا سفر

‏ایک بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کِیا "ہے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ؟"
شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا، درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو ‏اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا
ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں

بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ہوا ‏تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اُس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے

شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ہے
بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک کام جو
آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا ‏کیسے کر گیا ؟

بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟

اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے: 
"میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہو گئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے"

‏بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا
اندھے کی رخصتی کے ساتھ ہی میرا غصہ میری انا اور میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہو گئی
 
مجھے سمجھ آ گئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت اور محبت ہی انسایت کی معراج ہے جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا ‏جو نہ سہہ سکا وہ کانچ
بانو قدسیہ آپا ناول "راجہ گدھ" میں لکھتی ہیں کہ "جو دباؤ سہہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ"

مجھے اندھے بابا نے بہت بڑی بات سمجھائی میں جان گیا تھا کہ
اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے
میں نے سوچا انسان آخر کب تک برداشت کرے؟

‏کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟
کب تک اپنے غصے کو پئے؟
آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے
اندر سے آواز آئی
اُس وقت تک سہنا ہے جب تک ہیرا نہ بن جاؤ

ہیرا بننے کے بعد ہیرے پر کوئی دباؤ کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرتی یہاں سے پھر انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔❤

ابھی ریورس گیئر ممکن ہے

بیٹیاں چھوٹی اور بڑی نہیں ہوا کرتیں !! وہ تو بس بیٹیاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"" یار ڈن ہل امپورٹڈ دے آج ! لوکل اہویں ہی ہوتا ہے بس ! ""
رات کسی پہر آنکھ کھلنے پر مجھے دوبارہ فوراً نیند نہیں آتی تو جامع مسجد حنفیہ کے سامنے معین بھائی کے پان سگریٹ کے کیبن کے پہلو میں بچھے اللہ مالک ہوٹل کے پھٹے پر جا کر اکیلا بیٹھ جاتا ہوں ۔ 
شاہراہِ فیصل پر آتی جاتی گاڑیاں دیکھنا اور چوبیس گھنٹے آباد ہوٹلوں کی اس پٹی پر ہوٹلوں پر خوش گپیاں کرتے لوگوں کو ایک آدھ گھنٹہ دیکھنا میرا معمول کا مشغلہ ہے ۔
آج بھی شب دو بجے آنکھ کھلی تو اپنے ٹھکانے پر جا بیٹھا ۔
امپورٹڈ ڈن ہل سگریٹ مانگنے والا یہ نوجوان کوئی برگر بچہ نہیں تھا ۔
یہ چھبیس ستائیس سالہ ایک پوڈری / ہیرونچی تھا ۔
خواہ مخواہ کسی پر تبصرہ بازی یا جملے کسنا میری کبھی بھی عادت نہیں رہا لیکن اس جملے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنی حسِ ظرافت کا مظاہرہ کروں ۔
یہ پوڈری مڈل کیریئر ٹائپ پوڈری تھا مطلب ابھی ہیروئن اُسے سو فیصد نہیں نچوڑ پائی تھی ۔ ابھی اُس کے چہرے پر کچھ رس اور رونق باقی تھی ۔
کپڑے بھی زیادہ گندے نہیں تھے ۔ ہاتھ عام پوڈریوں کی طرح جگہ جگہ سے جلے ہوئے تھے ۔ پاؤں میلے کچیلے اور سوجھے ہوئے تھے ۔
میں نے اُس سے پوچھا کہ پاکستانی ڈن ہل میں وٹامن کم ہوتے ہیں جو امپورٹڈ مانگ رہے ہو ۔
وہ دلفریب انداز میں مسکرایا ۔
بس اُس کی مسکراہٹ گھائل کر گئی ۔
کہنے لگا پاکستانی ڈن ہل میں گھاس بھری ہوتی ہے ، امپورٹڈ میں تمباکو ہوتا ہے ۔
میں نے پوچھا کہ کیا اب بھی تمباکو تمھیں کوئی لطف دیتا ہے ؟
وہی مسکراہٹ کہ یار تمباکو کیا لطف دے گا بس ماں باپ نے اتنے لاڈوں سے پالا تھا کہ توفیق ملتی ہے تو اچھی چیز کو ہی ہاتھ لگاتا ہوں ۔
اُس کی حجامت تازہ تازہ بنی ہوئی تھی ۔ سر پر موجود گھنے سیاہ بالوں میں اکا دکا سفید بال ہی نظر آ رہے تھے ۔
میں نے اپنے پہلو میں پھٹے کو تھپتھپایا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ میرے پہلو میں بیٹھ کر کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگانے لگا ۔
ہزارے وال ہو ؟ 
نہیں پنجابی ہوں ، بہاولپور سے ہوں ۔
کب سے شغل میلہ کر رہے ہو ؟ میں نے پوچھا
دس سال ہو گئے ہیں ۔
وہ ذرہ برابر جھوٹ یا تکلف سے کام نہیں لے رہا تھا ۔
کیا ریٹ چل رہا ہے آج کل ؟
پانچ سو روپے گرام ہے ۔
شادی شدہ ہو ؟
ہاں پانچ بچے ہیں ۔
ماشاءاللہ کتنی عمر ہے تمھاری ؟
اٹھائیس سال کا ہوں ۔
کیسے شروع کیا یہ سب ؟
رنگ روغن کا کاریگر اور ٹھیکیدار تھا ۔
شادی کے بعد ایک دن گھر میں بیگم کے ساتھ جھڑپ ہوئی تو غصے کی حالت میں ہی کام پر چلا گیا ۔
میرے کاریگروں میں دو تین ہیرونچی بھی تھے ۔ ہیرونچی کام دل لگا کے کرتے ہیں اس لیے کوئی کام مانگنے آتا تھا تو دے دیتا تھا ۔
اُس دن جب میں کام پر پہنچا تو وہ دوا دارو لینے کی تیاری کر رہے تھے ۔ میں نے کہا لاؤ ، ادھر لاؤ ، دیکھوں تو کیا جادو ہے اس میں ۔
بس پھر ایک آدھ مہینے میں ہماری پوری ٹولی ہی مست و مست ہو گئی ۔
کچھ سال اچھی غذا اور کام دھندے کی وجہ سے نظام چلتا رہا پھر دھیرے دھیرے چیزیں ہاتھوں سے سلپ ہوتی چلی گئیں ۔
لیکن تمھارے چہرے پر ابھی کافی رونق باقی ہے ، ماشاءاللہ ،
دس سال بہت ہوتے ہیں ، اس کا کیا راز ہے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا
اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
سب سے بڑا راز سب سے چھوٹی بیٹی ہے ۔ چار پانچ سال کی ہے ۔
وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا
ہم سب بھائی اکھٹے رہتے ہیں ۔
مجھے باپ بھائی سب ہی ذلیل کرتے ہیں لیکن بیٹی میرے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں سوتی ۔
ابھی اس وقت بھی وہ گھر میں بستر بدل رہی ہو گی ۔
کبھی اماں کے ساتھ ، کبھی دادی اور کبھی دادا کے ساتھ سونے کی کوشش کر رہی ہو گی ۔ جب تک میں گھر نہیں جاوں گا اُسے نیند نہیں آئے گی ۔
اُسی کی وجہ سے نہا دھو بھی لیتا ہوں اور کٹنگ بھی کروا لیتا ہوں لیکن کبھی کبھار گندا مندا بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے ہی لپٹ کر پرسکون نیند سوتی ہے ۔
گھر کا نظام کیسے چل رہا ہے ؟ 
اچھے وقتوں میں گھر اپنا لے لیا تھا ۔ اُسی میں ابا نے میرے بیٹے کو دوکان کھول کر دے دی ہے ۔ گیارہ سال کا ہے ۔ اور بھائی بھی کام کرتے ہیں ۔ گھر والوں کو کوئی خاص ٹینشن نہیں ۔
بیٹی کی محبت کا خوب جواب دے رہے ہو ؟ میں نے پہلا وار کیا
اُس کی آنکھیں پھر نم ہو گئیں ۔
وہ بیٹی نہیں بھائی جان ، اب تو جیسے وہ میری ماں ہے ۔
کبھی گھر والوں سے پیسے مانگوں تو جھڑکیاں سننے کو ملتی ہیں ۔
ںیٹی جب دیکھتی ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا تو بیس تیس روپے کے سکے ادھر ادھر دیکھ کر چوری سے میری جیب میں ڈال دیتی ہے کہ " بابا آپ کی سگریٹ کے لیے اکھٹے کیے تھے "
اب تو اُس کی آنکھوں سے باقاعدہ موتیوں کی لڑیاں جاری ہو چکی تھیں ۔
یار تیری جان ابھی پوری نہیں جلی ۔ ابھی رہورس گیئر ممکن ہے ۔ سانگھڑ کیوں نہیں جاتے , میں نے دو بندے بھیجے تھے دونوں ٹھیک ہو کر آ گئے تھے ، سُنا ہے بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے اُسے دانہ ڈالا
سانگھڑ والے دوا نہیں دیتے بالکل بھی ، میرے دو دوست گئے تھے ، دونوں کی لاشیں واپس آئی ہیں ، بہت سختی کرتے ہیں وہاں ، دوا بالکل نہیں دیتے ، بس اچانک سب کچھ بند کر دیتے ہیں  ۔
پھر کوئی اور جگہ ہے کیا ؟ میں نے پوچھا
ماڈل کالونی میں دارالنجات والے ٹھیک ہیں لیکن مہنگے ہیں بہت ، ہمارے پاس اتنے اکھٹے پیسے نہیں ہیں ۔
کتنے مہنگے ہیں ؟ میں نے پوچھا
پندرہ سو دو ہزار روزانہ کا خرچ ہے ۔ بیس پچیس دن تو لگتے ہیں ۔
میں نے اپنے توشہ خانے میں موجود نوٹوں کو چشم تصور سے دیکھا تو مطلوبہ رقم سے کچھ زائد ہی موجود تھی ، الحمدللہ
معین والے سے پین اور کاغذ لو ۔
وہ پین اور کاغذ لے آیا ۔
اپنا نام اور نمبر لکھ کر دیا کہ کل دارالنجات پہنچ کر فون کر دینا مجھے ، میرے گھر سے پانچ دس منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
لیکن یار ایک مسئلہ اور بھی ہے ۔ لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ۔ پھر کچھ دن بعد وہی حال ہوتا ہے ۔ میں نے یقین دہانی طلب کی ۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہو ، یہ سامنے مسجد ہے اس کے سامنے وعدہ کر رہا ہوں بس ایک بار ہوش میں لے آؤ  مجھے !!!
میں نے اپنی گڑیا کو سیر کرانے سی ویو لے کر جانا ہے ۔ اُس کے سارے سکے میں نے اُسے واپس کرنے ہیں ۔
میں بہت سنگ دل ہوں لیکن اس پوڈری کے آخری ڈائیلاگ نے میری ڈھیٹ  آنکھوں کو بھی نم کر دیا ۔
اچھا اچھا زیادہ ڈائیلاگ نہیں مار کل ملتے ہیں ان شاءاللہ ۔
ابھی فوراً گھر جاؤ ، گڑیا جاگ رہی ہو گی۔

Tuesday, October 27, 2020

ڈپریشن


یہ آج سے چھ سال پرانی بات ہے، میں ایک درمیانے سائز کی کمپنی چلا رہا تھا۔ ہم لوگ امریکی کمپنیوں کو آئی ٹی سلوشن دیتے تھے۔ ہمارے سلوشن دس پندرہ ڈالر مالیت کے ہوتے تھے لیکن ہمارے گاہکوں کی تعداد زیادہ تھی۔ چنانچہ دس پندرہ ڈالر ایک دوسرے کے ساتھ ضرب کھا کر بڑی رقم بن جاتے تھے۔ ہمارے کام کے ساتھ تین ساڑھے تین سو لوگ وابستہ تھے۔

یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ ہم ان کا کام پول کرتے تھے اور اس کی نوک پلک سنوار کر اسے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق بنا کر کمپنیوں کو بھجوا دیتے تھے۔ ہماری زندگی ہموار اور رواں چل رہی تھی مگر پھر اچانک صدر اوبامہ نے پالیسیاں تبدیل کرنا شروع کر دیں۔ یورپ اور امریکا میں پاکستان کا امیج بھی مزید خراب ہوگیا۔ لہٰذا کمپنیوں کو جوں ہی پتا چلتا تھا کہ ہم پاکستانی کمپنی ہیں وہ ہم سے رابطہ منقطع کر دیتی تھیں۔

یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچ گیا جہاں ہمارا بزنس تیزی سے نیچے آنے لگا ہمارے بینک اکاؤنٹ خالی ہوگئے، لوگ فارغ بیٹھ گئے اور ہم پریشانی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ میرا صرف ایک سورس آف انکم رہ گیا اور وہ تھا صحافت۔ میں ان دنوں شدید ڈپریشن سے گزر رہا تھا۔

میں ڈپریشن میں ہمیشہ عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیتا ہوں، میں پیدل چل پڑتا ہوں اور چلتے چلتے بعض اوقات کسی اجنبی گاؤں یا دوسرے شہر پہنچ جاتا ہوں یا میں ائیرپورٹ جاتا ہوں اور مجھے جہاں کی فلائیٹ مل جائے میں اس میں چڑھ جاتا ہوں یا میں ٹرین میں سوار ہو جاتا ہوں یا کسی لوکل بس میں داخل ہو کر سارا دن اس میں گزار دیتا ہوں یا پھر انتہائی پرانی تھکڑ ٹیکسی میں گھس جاتا ہوں اور اسے کہتا ہوں تم بس چلتے رہو اور جہاں دل چاہتا ہے اتر کر چل پڑتا ہوں۔ ڈپریشن دور کرنے کا یہ طریقہ میں نے خود ایجاد کیا اور یہ کم از کم میرے سلسلے میں بہت کارگر ثابت ہوتا ہے، میں نے اس دن بھی یہی کیا۔ میں گھر سے نکلا، چوک میں گیا اور انتہائی تھکڑ ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔

یہ 1987ء کی ایف ایکس گاڑی تھی اس کا کوئی پرزہ ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا۔ گاڑی آگے چلنے کے ساتھ ساتھ پھڑک کر دائیں بائیں بھی چل پڑتی تھی۔ ڈرائیور گاڑی سے بھی زیادہ بیمار اور بوڑھا تھا۔ میں نے اس ٹیکسی میں بمشکل ہزار میٹر سفر کیا اور میرا ڈپریشن خوف میں تبدیل ہوگیا۔ میں ڈر گیا اور میں ڈرائیور سے ٹیکسی روکنے کے لیے منتیں کرنے لگا۔ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے بریک لگائی۔ میں نیچے اترا، جیب میں ہاتھ ڈالا، پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر ڈرائیور کو دیا اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے لگا۔

میں نے تھوڑی دیر بعد محسوس کیا کوئی میرے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ میں نے خوف زدہ ہو کر مڑ کر دیکھا، ٹیکسی کا ڈرائیور میرے پیچھے سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ میں رک گیا۔ وہ بیمار اور بوڑھا تھا، وہ بڑی مشکل سے میرے قریب پہنچا، لمبے لمبے سانس لینے لگا اور جب سانس بحال ہوگیا تو اس نے گلوگیر آواز میں کہا، سر میں آپ کے ہاتھ چومنا چاہتا ہوں۔ مجھے میری نام نہاد کامیابی نے اس لیول تک پہنچا دیا ہے جہاں میرے جیسے چھوٹے لوگ خود کو مقدس سمجھنے لگتے ہیں اور ہر شخص سے توقع کرتے ہیں یہ بھی میرا فین ہوگا۔

میں نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو بھی اپنا فین سمجھا اور متکبر لہجے میں کہا، نہیں نہیں، بابا جی کوئی بات نہیں، میں بھی آپ جیسا انسان ہوں۔ڈرائیور نے میری بات پر توجہ دیے بغیر کہا، سر! مجھے چار دن سے کوئی سواری نہیں ملی تھی، میرے گھر میں دو دن سے فاقہ چل رہا تھا، صاحب! آپ فرشتہ بن کر آئے اور مجھے پانچ سو روپے دے دیے، میں اب آٹا اور دال لے کر سیدھا گھر جاؤں گا اور اپنی بیوہ بیٹی اور نواسے نواسوں کو کھانا کھلاؤں گا لیکن میں گھر جانے سے پہلے اپنے محسن کے ہاتھ ضرور چوموں گا۔ وہ یہ کہہ کر میرے ہاتھ کی طرف لپکا اور میرا ہاتھ اپنے گندے اور کھردرے ہاتھوں میں لے لیا اور میں سکتے کے عالم میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔

مجھے اس وقت محسوس ہوا، میرا تازہ تازہ بزنس فلاپ ہوا ہے، میں کریش کر رہا ہوں لیکن میں اس کے باوجود اس شخص کی نظروں میں دنیا کا امیر ترین شخص ہوں، میں اس شخص کی نظروں میں صرف پانچ سو روپے کی وجہ سے ان داتا ہوں، فٹ پاتھ پر اس وقت دو لوگ کھڑے تھے میں اور وہ ڈرائیور۔ میں خود کو ناکام، ڈاؤن اور لوزر سمجھ رہا تھا جب کہ میں ڈرائیور کی نظروں میں دنیا کا امیر اور سخی ترین شخص تھا۔ میں نے فوراً ڈرائیور کا ہاتھ پکڑا اور اس کا رخ موڑا، اسے اپنی جگہ کھڑا کیا اور خود اس کی جگہ کھڑا ہوگیا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس نے مجھے دنیا کی چوتھی سچائی سمجھا دی اور وہ چوتھی سچائی تھی ہم ناکام ہونے، بدحال ہونے اور کریش ہونے کے بعد بھی جہاں پہنچ جاتے ہیں وہ جگہ لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے۔

لوگ نسلوں کی محنت کے بعد بھی اس جگہ تک نہیں پہنچ پاتے جہاں ہم اونچائی سے گرنے کے بعد ناکام ہونے کے بعد ٹک جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت بھی کروڑوں لوگ صرف پانچ سو روپے کے لیے سارا دن فٹ پاتھ پر گزار دیتے ہیں۔ ہمیں جس دن پانی کی بوتل نہیں ملتی اور ہم نلکے کا پانی پینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، نلکے کا وہ پانی کروڑوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے۔ ہم آدھا برگر اپنی پلیٹ میں چھوڑ کر گھر آجاتے ہیں، لاکھوں لوگ برگر کے اس ٹکڑے کے لیے پوری زندگی آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم ریستوران میں ٹرائی کرنے کے لیے چار ڈشیں منگوا لیتے ہیں، پسند نہیں آتیں تو چھوڑ دیتے ہیں۔

دنیا میں اس وقت بھی ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو ایسے کھانوں کی صرف خوشبو سونگھنے کے لیے کچرا گھروں کا کچرا ادھیڑتے رہتے ہیں۔ ہم چائے کی جگہ کافی پیتے ہیں لیکن ہمارے دائیں بائیں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جن کی نظر میں چائے دنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہے۔ ہم رات سوتے وقت گندے مندے کپڑے پہنتے ہیں، ہمارے چار چار سال پرانے سلیپر ہماری ٹوٹی ہوئی پلیٹس، ہماری پھٹی ہوئی کتابیں، خراب کاپیاں اور ہمارے بچوں کے ناکارہ کھلونے، یہ بھی اربوں لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتے ہیں۔ لوگ آٹے کے ایک تھیلے، گھی کے ایک ڈبے اور سر کے ایک دوپٹے کے لیے سارا سارا دن لوگوں کی دہلیزوں پر بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے کپڑے خود خرید سکیں، یہ جیب سے پیسے نکالیں اور دکان سے جو چاہیں خرید لیں، یہ مسرت ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے، یہ اس سطح تک پہنچنے کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

ہم میٹرک پاس ہیں، ہم بی اے میں تیسرے درجے میں پاس ہوئے اور ہم نے چار سال میں گھسٹ گھسٹ کر ایم اے کر لیا، ہمیں منتوں اور دعاؤں کے بعد کلرک کی نوکری ملی، ہمارے پاس صرف اسکوٹر یا صرف ٹوٹا ہوا سائیکل ہے، ہم ایف ایکس گاڑی چلا رہے ہیں اور ہم دو مرلے کے گھر میں رہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی سوچا دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو تین تین نسلوں سے دو مرلے کے اس گھر کو ترس رہے ہیں۔ ممبئی اور کولکتہ میں آج بھی لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر پیدا ہوتے ہیں اور پوری زندگی ان فٹ پاتھوں پر گزار کر انھی فٹ پاتھوں پر مر جاتے ہیں اور میونسپلٹی کے سویپر ان کی لاشیں کچرا گاڑیوں میں لاد کر لے جاتے ہیں۔

آپ اپنی ٹوٹی ہوئی سائیکل خیرات کرنے کا اعلان کر دیں آپ کے گھر کے سامنے دنگا ہو جائے گا، لوگ ٹوٹی سائیکل کے لیے ایک دوسرے کا سر کھول دیں گے، یہ ٹوٹی ہوئی سائیکل ان لوگوں کی زندگی کا بہت بڑا خواب ہے۔ آپ میٹرک کے بعد دائیں بائیں دیکھیں، آپ کو کروڑوں لوگ میٹرک کی سند سے محروم ملیں گے، یہ لوگ نسلوں سے ہائی اسکولوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ اسکول کی دہلیز کے اندر داخل نہیں ہو پا رہے۔ ہمارے ملک میں کروڑوں لوگ کلرک کی نوکری کے لیے اپنے جیسے لوگوں کے تلوے تک چاٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور آپ کو کروڑوں ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو آپ کی پالتو بلی اور جرمن کتے کی خوراک کو حسرت سے دیکھیں گے۔

یہ نسلوں کے سفر کے باوجود اس خوراک تک بھی نہیں پہنچ سکے۔ ہمارے ملک میں آج بھی ننانوے فیصد لوگ ہوائی سفر نہیں کرسکے، یہ ائیر پورٹ کے لاؤنج میں داخل نہیں ہوئے۔ ساٹھ فیصد لوگ پوری زندگی کموڈ پر نہیں بیٹھے اور کافی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، ملک کے 80 فیصد لوگ یہ بھی نہیں جانتے۔ لاکھوں لوگ پینا ڈول کی گولی، شوگر کی ٹیبلٹ اور بلڈ پریشر کی دوا کو ترستے ترستے مر جاتے ہیں۔ لوگ قصابوں کی دکانوں سے چھیچھڑے اکٹھے کر کے پکاتے ہیں، اوجھڑیاں ابال کر کھاتے ہیں، لوگوں کے اترے کپڑے پہنتے ہیں، پانچ پانچ سال لوگوں کے پرانے سلیپر گھسیٹتے ہیں اور حلوے، کیک اور رس ملائی کے ذائقے کو ترستے ترستے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

میں پانچ سال پہلے کاغذ کی ایک سائیڈ پر لکھا کرتا تھا۔ مجھ سے ایک دن میرے ایک ملازم نے کہا، آپ مجھے یہ کاغذ دے دیا کریں۔ میں نے پوچھا، کیوں؟ وہ بولا، سر! میں اپنی بیٹی کو دے دیا کروں گا، وہ کاغذ کی صاف سائیڈ پر ہوم ورک کر لیا کرے گی۔ میں نے اس کی بیٹی کی کاپیوں اور کتابوں کا خرچ اٹھا لیا اور کاغذ کی دو سائیڈوں پر لکھنا شروع کر دیا اور میں ریستوران میں پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا۔ پیک کراتا ہوں، چوکوں میں کھڑے بچوں کو دیتا ہوں۔ ہم نے کبھی سوچا، ہم زندگی میں جس ناکامی جس محرومی اور جس زوال کو زوال سمجھتے ہیں وہ زوال وہ محرومی اور وہ ناکامی کتنے لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا خواب ہوتی ہے، لوگ نسلیں خرچ کر کے بھی اس کھجور تک نہیں پہنچ پاتے جس میں ہم آسمان سے گر کر اٹک جاتے ہیں اور باقی زندگی شکوؤں میں گزار دیتے ہیں۔

وہ بوڑھا ڈرائیور میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کے کھردرے ہاتھ پکڑ رکھے تھے اورزار و قطار رو رہا تھا اور وہ حیرت سے میری طرف دیکھ رہا تھا، وہ حیران تھا میری جیب میں جب پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ ہیں تو پھر میں کیوں رو رہا ہوں، میں کیسے دکھی ہوسکتا ہوں؟ میں اسے کیسے بتاتا، میں ناشکری کے مرض میں مبتلا ہوں اور ناشکری ایک ایسا کینسر ہے جس کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس بھی موجود نہیں۔


*🇵🇰💦📚شعور پاکستان📚💦🇵🇰*
https://chat.whatsapp.com/Lpy9zxt9hwgIRAKzab8DBR

اللّٰہ کی راہ میں صدقہ کرنا

*میرا عزم باشعور پاکستان*


ستاربھائی۔ ۔ ۔ وہ چیونٹیاں مارنے والا پاؤڈر ہے؟ انہوں نے آتے ہی دکاندار سے سوال کیا تھا، جو اسوقت ہمارے لئے کالی مرچ تول رہا تھا۔ 
جی باجی۔ ۔ ۔ ابھی لایا۔ وہ ہماری کالی مرچوں کو چھوڑ کر اندرونی حصے میں چلا گیا اور کچھ دیر بعد کوپیکس پاؤڈر کے گول ڈبے کو جھاڑتا ہوا لے آیا۔ 
یہ کیا ہے ؟ ابّا کے ماتھے پر بل آگئے۔ 
ارے۔ ۔ ۔ شاہ صاحب۔ ۔ ۔ یہ بڑا بہترین پاؤڈر ہے، چیونٹیوں کو مارنے کے لئے۔ ۔ ۔ منٹوں میں چیونٹیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ انسانی صحت کے لئے مضر بھی نہیں۔ ۔ ۔ میں تو اپنی پوری دکان میں یہی استعمال کرتا ہوں۔ 
ابّا کے استفسار پر ستار بھائی کی آنکھوں میں پاؤڈر والوں کا کمیشن لہرانے لگا۔ 
ہاں ۔ ۔ ۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر چیونٹیوں کو کون مارتا ہے بھلا ؟ آخر وہ کسی کا کیا بگاڑتی ہیں؟ ابّا نے حیرانی سے خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
تو کیا کروں انکل؟ میں تو پریشان ہو گئی ہوں ان چیونٹیوں سے۔ ۔ ۔ بچوں والا گھر ہے میرا۔ ۔ ۔ شوہر سے کہا تو انہوں نے بھی جھاڑ پلا دی۔ ۔ ۔ کہنے لگے، ''امی کی زندگی میں تو کبھی ہمیں چیونٹیوں نے پریشان نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ گھر کو بالکل صاف رکھا کرتی تھیں'' ۔ ۔ ۔  اب آپ ہی بتائیں۔ ۔ ۔ آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا میں گھر کی صفائی نہیں کرتی ہونگی؟ کیا میں آپ کو ایسی پھوہڑ دکھائی دیتی ہوں؟ 
خاتون نے نہ صرف اپنا دکھڑا رونا شروع کردیا، بلکہ ابّا سے سوالات بھی کرنا شروع کردئے۔
 اور ابّا جو ان سوالات کے لئے بالکل تیار نہ تھے، ایکدم پریشان ہو گئے۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے نجات کے لئے تم ایک مٹھی آٹا ڈال دیا کرو۔ ۔ ۔ یہ بیچاری ننھی مخلوق تو صرف رزق کے لئے باہر آتی ہے۔ ۔ ۔ اور بس۔ ۔ ۔!
ابّا کے لہجے میں زمانے بھر کی شفقت دیکھ کر،  خاتون نے غیر محسوس انداذ میں دوپٹہ سر پر لے لیا۔ 
جی جی انکل۔ ۔ ۔ مگر کیا اس سے چیونٹیوں سے چھٹکارہ مل جائے گا؟ وہ اب بھی غیر یقینی انداذ میں ابّا سے پوچھ رہی تھیں۔
کیوں نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ پرانے زمانے سے یہی رواج چلا آرہا ہے۔ ۔ ۔ اِدھر گھر میں چیونٹیاں نظر آئیں، اور اُدھر بڑی بوڑھیوں نے مٹھی بھر آٹا کونوں میں ڈال دیا۔ ۔ ۔ چیونٹیوں سے بھی نجات۔ ۔ ۔ اور صدقے کی نیکی مفت میں۔ 
ابّا ہنسنے لگے تو خاتون کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔
چلیں میں بھی پھر۔ ۔ ۔ آٹا۔ ۔ ۔ ہی ٹرائے کرتی ہوں۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کوپیکس پاؤڈر وہیں کاؤنٹر پر رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئیں۔
 اور ستاربھائی نے ابّا کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کالی مرچوں کو تولنا شروع کردیا۔ 
ابّا۔ ۔ ۔ تم نے ستار بھائی کی دکانداری خراب کردی ۔  
واپسی پر میں نے ابّا سے ہنستے ہوئے کہا۔ 
نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ یہ بات نہیں۔ ۔ ۔  ہمارے گھروں سے برکتیں اسی لئے اٹھ گئی ہیں ۔ ۔ ۔  لوگ اللّہ کی مخلوق کا خیال رکھنا بھول چکے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے کسی گھر کے سامنے کُتا بھی آکر بیٹھ جاتا تھا، تو گھر کی خواتین اسکے سامنے بھی کچھ نہ کچھ بچا کھچا سالن روٹی رکھ دیا کرتی تھیں۔ ۔ ۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اب ۔ ۔ ۔ روٹیاں بھی گن کر پکائی جاتی ہیں۔ ۔ ۔ برکتیں کہاں سے آئیں گی پھر؟ ۔ ۔ ۔ اس قوم پر بومب نہ گریں۔ ۔ ۔ زلزلے نہ آئیں۔ ۔ ۔ سیلاب نہ آئیں۔ ۔ ۔  تو اور کیا ہو؟
ابّا تاسف کے اظہار کے ساتھ ساتھ مجھے آسان زندگی کے گُر سمجھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔ 
عرصہ گذر گیا۔ ۔ ۔ 
میں بھی اس واقعے کو بھول گیا۔
پھر ایک دن بڑے بھائی جان کے ہاں جانا ہوا۔ ابھی ڈور بیل بجانے ہی لگا تھا کہ، چڑیوں کے جُھنڈ کے اڑنے کی زوردار آواز کانوں میں پڑی، چونک کر اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ مین گیٹ کے دونوں جانب مٹی کے کُونڈے رکھے تھے، اور ان کُونڈوں سے چند لمحے قبل یقیناً وہ چڑیاں دانہ چگ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ اور اب میری آمد سے ڈر کر اانہوں نے اڑان بھری تھی۔ مگر ابھی بھی۔ ۔ ۔ وہ اڑ کر دور نہیں گئیں تھیں۔ ۔ ۔ بلکہ اوپری مُنڈیر پر اِدھر اُدھر پھدک کر میرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ 
بھتیجی نے دروازہ کھولا تو میں اندر داخل ہوگیا۔ 
یہ کیا ؟۔ ۔ ۔ اتنی ساری چڑیاں۔ ۔ ۔؟ میں نے سلام کے بعد خوشگوار حیرت سے بھابھی سے پوچھا۔ جو کچن کی کھڑکی سے کھانا پکاتے ہوئے مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ 
تمہارے بھائی جان نے رکھے ہیں یہ کُونڈے لا کر۔ ۔ ۔ چڑیوں کے دانے کے لئے۔ 
وہ معنی خیز انداز میں بڑی بھتیجی کو دیکھ کر مسکرائیں تو مجھے اچنبھا سا محسوس ہوا۔ 
شام کو بھائی جان آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا۔
بھائی جان۔ ۔ ۔ یہ چڑیوں کے لئے دانہ رکھنے کی کوئی خاص وجہ ہے کیا؟ 
نہیں بس ۔ ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ اچھا ہوتا ہے۔ ۔ ۔صدقہ دیتے رہنا چاہئے۔ 
بھائی جان نے آہستہ سے سمجھایا۔ ۔ ۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ ۔ ۔ خصوصًا جس گھر میں بیٹیاں ہوں۔ ۔ ۔ پھر بتانے لگے کہ
 کسی بزرگ کے پاس ایک شخص نے آکر بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور پریشان ہے کہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح کر پائے گا، کیونکہ غربت کی وجہ سے کوئی اسکی بیٹیوں سے شادی کرنے کو تیار نہیں۔ 
بزرگ نے مشورہ دیا کہ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ ۔ ۔ تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ 
غریب آدمی مارے احترام کے بزرگ کو تو کچھ نہ بول پایا، البتہ آستانے سے باہر آکر زاروقطار رونے لگا۔ 
پاس سے گذرتے کسی دانا نے پوچھا روتے کیوں ہو؟
غریب نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ غربت نے پہلے ہی مار مار کر ادھ موا کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اور سرکار نے فرمایا ہے کہ ۔ ۔ ۔ روز دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ۔ ۔ ۔ تب بیٹیوں کی شادی ممکن ہوگی۔ 
دانا آدمی مسکرا کر بولا
بھلے آدمی۔ ۔ ۔ بھوکا کیا صرف انسان ہوتا ہے؟ اللّہ کی مخلوق ۔ ۔ ۔ چھوٹی ہو یا بڑی ۔ ۔ ۔ بھوک تو سب کو ستاتی ہے۔ ۔ ۔ اگر تم ایک مٹھی آٹا بھی چیونٹیوں کو ڈال دو گے تو سمجھو تمہارا صدقہ ہوگیا۔ 
دانا آدمی تو یہ کہہ کر اپنی راہ چل دیا۔ ۔ ۔ اور غریب اپنی ناقص عقل پر ہنستے ہوئے اپنے گھر کو چلا۔ کچھ عرصے بعد ہی صدقے کی برکات سے نہ صرف وہ اپنی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوا بلکہ گھر میں بھی خوشحالی آگئی۔ 
بھائی جان جس وقت یہ واقعہ ہم کو سنا رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے ابا کی ''مٹھی بھر آٹے'' والی بات یاد آرہی تھی۔ 
میں نے آنے والے دنوں میں دیکھا کہ بھائی جان نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ان کی صحیح عمر میں ۔ ۔ ۔ بالکل درست موقعے پر کر دیں۔ 
شاید اسی لئے۔ ۔ ۔ جب میں نے اپنا گھر لیا تو سب سے پہلے اپنے دروازے کے پاس چڑیوں کے لئے دانہ رکھ دیا۔ 
کئی بار گھر بدلا۔ ۔ ۔ ہر بار یہ چڑیاں، کبوتر اور کوّے میرے رزق کی آسانیوں کا سبب بنتے رہے۔
 بیماریاں بھی آئیں۔ ۔ ۔ 
پریشانیوں نے بھی گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ مگر ہمیشہ یہ پرندے مجھے آسرا دیتے رہے۔ ۔ ۔
 اِنّا مَعَ العُسرِ یُّسرًا ۔ ۔ ۔ کے معنی سمجھاتے رہے۔ ۔ ۔ اللّہ رب العزت کی بڑائی کا یقین دلاتے رہے۔ 
الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
ثُمَّ الحمداللہ۔ ۔ ۔ 
میں نے آج تک اپنے بچوں کا بہتا خون نہیں دیکھا۔ ۔ ۔ انہیں کسی تکلیف سے تڑپتے نہیں دیکھا۔ 
ایک وقت ایسا بھی آیا جب میرے گھر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ۔ ۔ ۔ ہماری مرغی کُڑک ہوجانے کے باوجود انڈوں پر کیوں نہیں بیٹھ رہی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ وہ دور تھا۔ ۔ ۔ جب میرا گھر ''کبوتروں والا گھر'' کے نام سے مشہور ہوچکا تھا۔ 
یقین مانئیے۔ ۔ ۔ کہ یہ تمام باتیں اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ نعوذ بااللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی نیکیوں کا پرچار کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ بلکہ میں اس راز کو کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں جو سوال کی صورت میں مجھ سے اکثر کیا جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔  آخر کیسے گذا را کر لیتے ہو؟۔ ۔ ۔ ہم سے تو نہیں ہوتا۔ 
میں نے اپنی زندگی کو اسی ننھی مخلوق کی خدمت کرکے آسان بنایا ہے۔ 
تمام بڑائیاں اس رب کے لئے جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں یہ کر سکوں۔
اللّہ ہم سب کو صدقات کی توفیق دے ۔ آمین

مائیں اتنی معصوم کیوں ہوتی ہیں؟


موبائل فون میں ایک مقبول عام ایپ ہے''ٹاکنگ ٹام''۔ آپ جانتے ہوں گے کہ اِس ٹام کے سامنے جو کچھ بولا جاتا ہے یہ اُسے مضحکہ خیز آواز کے ساتھ دُہرا دیتا ہے۔ یہ آپ ہی کی آواز ہوتی ہے جو پچ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ آپ کو سنائی دیتی ہے۔ شہزاد صغیر میرا دیرینہ دوست ہے۔ اُس کی والدہ حیات تھیں تو ایک پرانے اینڈرائڈ موبائل پر بطور خاص ٹاکنگ ٹام سے گھنٹوں باتیں کیا کرتی تھیں۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ ٹاکنگ ٹام سے باتیں کرتیں تو پہلے وضو کرتیں، پھر سر پر چادر اوڑھ کر نہایت انہماک سے گھر کے کسی پرسکون کونے میں بیٹھ کر ٹاکنگ ٹام ایپ کھول کر گفتگو کرنے لگتیں۔ گھر والوں نے پوچھا کہ ماں جی یہ آپ کیا باتیں کرتی ہیں؟ جواب ملا 'میں اسے قرآن پڑھا رہی ہوں'۔ شہزاد صغیر کا کہنا ہے کہ اس کی والدہ بڑی خوش تھیں کہ ٹاکنگ ٹام نامی یہ بچہ بڑی محنت اور محبت سے قرآن کی آیات سیکھ رہا ہے اور جیسا میں سکھاتی ہوں ویسا ہی آگے سے پڑھتاہے…!!!

کئی برس پہلے میں لاہور کے ایک ٹی وی چینل سے بطور اسکرپٹ ایڈیٹر وابستہ تھا ۔ملتان سے ماں جی بے تابی سے پوچھا کرتی تھیں کہ کب آئو گے؟ میری مصروفیات کچھ ایسی تھیں کہ ایک سال سے پہلے چکر لگانا مشکل ہوتا تھا لہٰذا میں رمضان کے آخری دنوں میں ہرحال میں ملتان پہنچ جایا کرتا تھا تاکہ عید والدین کے ساتھ کرسکوں۔ ایک دفعہ چینل کی تنخواہ کچھ لیٹ ہوگئی۔ پچیسواں روزہ تھا۔ ماں جی کے فون پر فون آرہے تھے کہ تم آکیوں نہیں رہے۔ پہلے تو میں بہانے بناتا رہا لیکن جب اٹھائیسواں روزہ آگیا اور تنخواہ نہ ملی تو مجبوراً مجھے بتانا پڑا کہ ابھی مجھے پیسے نہیں ملے۔ ماں جی کی آواز میں پریشانی امڈ آئی۔فوراً بولیں''میں تمہارے ابو کو لاہور بھیجتی ہوں تاکہ وہ تمہاری ''فیکٹری '' والوں سے جاکر پوچھیں کہ آخر بچے کے پیسے کیوں نہیں دے رہے…''

بیس سال پہلے مجھے ایک اخباری فیچر کی تیاری کے سلسلے میں جیل جانے کا اتفاق ہوا۔فیچر کا موضوع تھا کہ سزائے موت کے قیدی کیا محسوس کرتے ہیں؟ جیل میں میری ملاقات ایک ایسے قیدی سے ہوئی جسے فخر تھا کہ اُس نے اپنے دو دشمنوں کو سوتے میں موت کے گھاٹ اتاردیا۔ یہ قیدی ایک پچیس سال کا نوجوان لڑکا تھا جسے سزائے موت سنائی جاچکی تھی اور سپریم کورٹ سے بھی اُس کی اپیل رد ہوگئی تھی۔میں نے جیل انتظامیہ سے اُس کے گھر کا ایڈریس لیا اور اُس کی ماں سے ملا۔ جب اسے پتا چلا کہ میں صحافی ہوں اور اُس کے بیٹے سے مل کر آرہا ہوں تو ایک دم رونے لگی اور ہاتھ جوڑ کر بولی''میرے بچے کو چھوٹی سی غلطی کی اتنی بڑی سزا نہیں ملنی چاہیے''۔ میں نے بے بسی سے کہا کہ ماں جی آپ کے بیٹے نے دو قتل کیے ہیں اور اعتراف بھی کرچکا ہے۔ ماں بھرائی ہوئی آواز میں بولی''پُتروہ تو ناسمجھ ہے، جب میں کہہ رہی ہوں کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا تو پھر یہ لوگ اُسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے…اُنہیں کہو اگر میری بات کا یقین نہیں تو میرا تین مرلے کا سارا مکان گارنٹی کے طور پر رکھ لیں۔''

میرے ایک دوست ریحان علی کے والد فوت ہوئے تو جائیداد کا بٹوارہ ہوگیا۔ والد صاحب کا آبائی گھر بک گیا تو ریحان نے اپنے حصے کے پیسے بھی والدہ کو تھما دیے۔ والدہ نے زندگی میں کبھی دو ہزار سے زائد کی رقم نہیں دیکھی تھی سو پریشان ہوگئیں اور پوچھا کہ یہ کتنے پیسے ہیں؟ ریحان نے بتایا کہ امی دس لاکھ ہیں۔ والدہ مزید پریشان ہوگئیں ۔ ان کی بلا جانے کہ دس لاکھ کیا ہوتے ہیں، نہایت رازدارانہ انداز میں بولیں''پیسے بہت زیادہ لگتے ہیں کہیں گھر میں ڈاکا ہی نہ پڑ جائے ایسا کرو پانچ ہزار بینک میں رکھوا دو ، باقی بے شک یہیں پڑے رہنے دو۔''

پاکستان کے صف اول کے ایک مقبول اداکار بتانے لگے کہ ایک دفعہ انہوں نے ایک ڈرامے میں ایک سنگدل شوہر کا کردار ادا کیا جو اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلیتاہے اور وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ڈرامے کی بیس اقساط آن ایئر جاچکی تھیں۔اسی دوران اُنہیں اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ جونہی دوست کی والدہ نے اداکار کو دیکھا اُسے نہایت پیار سے ہاتھ پکڑ کر تخت پوش پر بٹھایا اور سمجھانے لگیں کہ بیٹا تمہاری بیوی بہت مشکل میں ہے، نہ اس کے پاس کوئی گھر ہے نہ کوئی ٹھکانا۔ بچے بھی رُل گئے ہیں۔ خدا کے لیے جائو اور اُسے واپس لے آئو ، مجھے پتا ہے وہ اس وقت کہاں ہے۔''

کچھ عرصہ پہلے ایدھی ہوم میں ایک 75 سالہ ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ بہت خوش نظر آئیں۔ حیرت سے پوچھا کہ آپ کی اولاد آپ کویہاں چھوڑ گئی ہے اور آپ اتنی خوش ہیں؟ چہک کر بولیں''وے کملیا! میرے بچوں نے تو مجھ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے''۔ تفصیل پوچھی تو بڑے فخر سے بتانے لگیں کہ ''میرے دو بیٹے ہیں، دونوں شادی شدہ ہیں لیکن میری بہوئیں اچھی نہیں۔مجھے کھانا بھی نہیں دیتی تھیں اور بغیر پنکھے والے کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ اصل میں وہ ہر وقت میرے مکان پر قبضے کے خواب دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر میرے بیٹوں نے مجھے کہا کہ ماں جی یہ چھوٹا سا گھر ہے اسے بیچ دیتے ہیں اور ہم اپنے پیسے بھی ملا کر آپ کے لیے ایک بہت بڑاسا گھر لے لیتے ہیں جہاں ہماری بیویوں کو آنے کی اجازت ہی نہیں ہوگی۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔میں نے گھر اُن کے نام کردیا۔ گھر بک گیا لیکن میرے بچوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور یہ دیکھو مجھے اتنا بڑا گھر لے کر دیا ہے جہاں اتنے سارے پنکھے بھی لگے ہوئے ہیں، کھانا بھی وقت پر ملتا ہے اور میری کوئی بہو یہاں قدم بھی نہیں رکھتی۔اللہ میاں میرے بچوں کو دنیا جہان کی خوشیاں دے۔

عشق اور گناہوں سے توبہ

نوجوانوں کیلئے سبق آموز واقعہ
عشق ۔ ۔!!
بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر عاشق ہوگیا۔ اتفاق سے ایک دن کنیز کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں کسی کام سے بھیجا۔ قصاب کو موقع مل گیا اور وہ بھی اس کنیز کے پیچھے ہولیا۔ جب وہ جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آ کر اسے پکڑ لیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا۔
جب اس کنیز نے دیکھا کہ اس قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا:
''اے نوجوان تُو اس گناہ میں نہ پڑ !حقیقت یہ ہے کہ جتنا تُو مجھ سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالک حقیقی عز و جل کا خوف اس گناہ کے اِرتکاب سے روک رہا ہے!''
اس نیک سیرت اور خوفِ خدا عز و جل رکھنے والی کنیز کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاثیر کا تیر بن کر اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا:
'' جب تُو اللہ عز و جل سے اِس قدر ڈر رہی ہے تو مَیں اپنے پاک پرور دگار عزوجل سے کیوں نہ ڈروں- مَیں بھی تو اسی مالک عزوجل کا بندہ ہوں ، جا....تو بے خوف ہو کر چلی جا۔''
اتنا کہنے کے بعد اس قصاب نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی اور واپس پلٹ گیا ۔
راستے میں اسے شدید پیاس محسوس ہوئی لیکن اس ویران جنگل میں کہیں پانی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ قریب تھا کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے اس کا دم نکل جائے۔ اتنے میں اسے اس زمانے کے نبی کا ایک قاصد ملا۔ جب اس نے قصاب کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا:
''تجھے کیا پریشانی ہے؟''
قصاب نے کہا:'' مجھے سخت پیاس لگی ہے!''
یہ سن کر قاصدنے کہا: ''آؤ! ہم دونوں مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہم پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے اور ہمیں سیراب کرے یہاں تک کہ ہم اپنی بستی میں داخل ہوجائیں۔
''قصاب نے جب یہ سنا تو کہنے لگا:
''میرے پاس تو کوئی ایسا نیک عمل نہیں جس کا وسیلہ دے کر دعا کروں، آپ نیک شخص ہیں آپ ہی دعا فرمائیں ۔''
اس قاصد نے کہا:
''ٹھیک ھے مَیں دعا کرتا ہوں، تم آمین کہنا!''
پھر قاصد نے دعا کرنا شروع کی اور وہ قصاب آمین کہتا رہا،تھوڑی ہی دیر میں بادل کے ایک ٹکڑے نے ان دونوں کو ڈھانپ لیا اور وہ بادل کا ٹکڑا ان پر سایہ فگن ہوکر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا!
جب وہ دونوں بستی میں پہنچے تو قصاب اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا اور وہ قاصد اپنی منزل کی طرف جانے لگا۔
بادل بھی قصاب کے ساتھ ساتھ رہا جب اس قاصد نے یہ ماجرا دیکھا توقصاب کو بلایا اور کہنے لگا:
'' تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نیکی نہیں ، اور تم نے دعا کرنے سے اِنکار کردیا تھا۔ پھر میں نے دعا کی اورتم آمین کہتے رہے ،لیکن اب حال یہ ہے کہ بادل تمہارے ساتھ ہو لیا ہے اور تمہارے سر پر سایہ فگن ہے، سچ سچ بتاؤ! تم نے ایسی کون سی عظیم نیکی کی ہے جس کی وجہ سے تم پر یہ خاص کرم ہوا؟''
یہ سن کر قصاب نے اپنا سارا واقعہ سنایا۔اس پر اس قاصد نے کہا:
'' اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ دوسرے لوگوں کا نہیں ۔''
بے شک گناہ سرزد ہونا انسان ہونے کی دلیل ہے مگر ان پر توبہ کر لینا مومن ہونے کی نشانی ہے-
ع(حکایتِ سعدی)

نصوح کون تھا



دلچسپ تحریر
نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔
یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر
 (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو
سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس 
چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،
لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا 
نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،
قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔

آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ 
وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔
بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، 
بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔

جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔

چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔

ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ 
ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے 

نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔

وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا:
اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے  
یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے
یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو،
وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیشیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔ (اخذ مولانا جلال الدین رومی)

سبق: نصوح رزق کمانے کے لئے اللہ کا نا پسندیدہ کام کیا کرتا تھا۔ جب وہ کام اللہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑا تو اللہ نے رزق کے اسباب پیدا کئے اور بادشاہت تک عطا کر دی۔ حرام طریقے سے لذت حاصل کرنا چھوڑا تو اللہ نے نکاح میں شہزادی دے دی۔ 
اللہ تعالیہم سب کو توبہ کرنے، اور تا دم مرگ اس توبہ پر قائم رہنے کی توفیق فرمائے آمین۔

معاشی حالات

مولانا نے نمازِ جمعہ کا سلام پھیرا ہی تھا کہ ایک نمازی نے بلند آواز سے مولانا صاحب سے گزارش کی کہ مہربانی فرما کر پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کیلئے بھی دعا فرما دیں..
‏مولانا صاحب نے نظر بھر کر نمازیوں کی طرف دیکھا اور کہا اس سے پہلے ایک ضروری اعلان ہے، مولانا صاحب نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور بولے کہ کسی کے تین‏ ہزار روپے گرے ہیں جس کے ہوں وہ نشانی بتا کر لے سکتا ہے اس کے بعد دعا ہوگی اسکے ساتھ فوراً ہی 5 نمازی کھڑے ہوگئے۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ یہ پیسے مجھے میری بیوی نے دیئے ہیں سودا سلف لانے کے لئے آپ سب تشریف رکھیں اور دوسروں کو ٹوپیاں پہنانے سے باز آ جائیں.. پاکستان کے معاشی حالات خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔

Sunday, October 25, 2020

اپنی انفرادیت

اپنے آپ کو اٹھائیے

گرنے کے بعد لوگ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ خود کو جھاڑتے کیوں نہیں؟ پچھلے بیس سالوں میں اس ایک سوال نے مجھے جستجو اور تحقیق کی نئی دنیاؤں سے ملوایا ہے۔ 

لیڈرشپ کوچ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ بغیر لگی لپٹی کے اپنا پورا سچ آپ کو بتا دیتے ہیں۔

میری طرح آپ نے اپنے آس پاس ایسے کئی لوگ دیکھے ہونگے جو درجنوں پنچ کھا کے، گرکے، بار بار اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں زندگی نے ایک آدھ پنچ مارا اور آج کئی سال بعد بھی وہ وہیں مُنہ کے بل گرے پڑے ہیں۔ 

میری بیس سالہ تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ لوگ گرنے کے بعد بہت ساری خود ساختہ دلیلیں دے کے خود کو  قائل کر لیتے ہیں کہ پھر سے اُٹھ کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 

میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ ایک بار گرنے کو حتمی ہار سمجھ لیتے ہیں۔ 

بہت سے لوگ گرنے کو قسمت کا لکھا سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔ 

ہم میں سے کچھ لوگ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم تو گرے ہی نہیں ہیں۔ 

کئی میرے جیسے سمجھتے ہیں کہ اُنہیں جان بوجھ کے گرایا گیا ہے لہذا وہ احتجاجاً وہیں پڑے رہتے ہیں۔ 

کچھ لوگ پڑے پڑے کسی کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جو ہاتھ تھام کے اُنہیں اُٹھائے گا۔ 

بعض لوگ اس معجزے کا انتظار کرتے ہیں کہ ابھی کوئی آ کے اُنہیں اس ڈراؤنے خواب سے جگائے گا یہ کہہ کر کہ یہ تو "ٹرائی بال" تھی۔ ابھی تو میچ شروع ہی نہیں ہوا۔ 

کئی ایسے بھی ہیں جو  مزید مُکے پڑنے سے بچنے کے لئے وہیں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 

کچھ لوگ اُٹھنے کی سکت رکھتے ہوتے ہیں لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کا پنچ اتنا موثر نہیں ہوگا۔ ایک اور پنچ کھا کے دوبارہ یہیں واپس آنے سے بہتر ہے کہ اُٹھاہی نہ جائے۔ 

آپ کا جو بھی بہانہ ہے۔ آپ نے جو بھی بتا کے خود کو پڑے رہنے کے لئے قائل کیا ہے۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں۔ میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے۔

اپنی طرف ہاتھ بڑھائیے۔ خود کو اُٹھائیے۔ اپنے دل و دماغ سے اس عارضی شکست کی گرد کو جھاڑ دیجئے۔ اور نئے ولولے کے ساتھ، نئی لگن کے ساتھ، نئی اُمید کے ساتھ محمد علی کی طرح اگلے راؤنڈ کی تیاری میں لگ جائیے۔

قیصر عباس 
مصنف:  کامیابی مبارک