Friday, October 9, 2020

بیگمات کے آنسو

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی لاڈلی بیٹی
''کلثوم زمانی'' بیان کرتی ہیں:
''جس وقت میرے بابا کی بادشاہت ختم ہوئی اور تاج و تخت لٹنے کا وقت قریب آیا تو دلّی کے لال قلعہ میں ایک کہرام مچا ہوا تھا، در و دیوار پر حسرت برستی تھی، اُجلے اُجلے سنگِ مرمر کے مکان کالے سیاہ نظر آتے تھے۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ ڈیڑھ برس کی زینت میری گود میں تھی اور دودھ کے لیے بلکتی تھی، فکر اور پریشانی کے مارے ہم سب اسی یاس و ہراس کے عالم میں بیٹھے تھے کہ حضرت ظلِ سبحانی کا خاص خواجہ سرا ہم کو بلانے آیا۔ آدھی رات کا وقت، سناٹے کا عالم، گولوں کی گرج سے دل سہمے جاتے تھے لیکن حکم سلطانی ملتے ہی حاضری کے لیے روانہ ہو گئے۔ حضور مصلے پر تشریف رکھتے تھے، تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جب میں سامنے پہنچی، جھک کر آداب بجا لائی۔ حضور نے نہایت شفقت سے قریب بلایا اور فرمانے لگے''کلثوم لو اب تم کو خدا کو سونپا، قسمت میں ہوا تو پھر دیکھ مل لیں گے، تم اپنے خاوند کو لے کر فوراً کہیں چلی جاؤ، میں بھی جاتا ہوں، جی تو نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم بچوں کو آنکھ سے اوجھل ہونے دوں، پر کیا کروں ساتھ رکھنے میں تمھاری بربادی کا اندیشہ ہے، الگ رہو گی تو شاید خدا کوئی بہتری کا سامان پیدا کر دے۔''

اتنا فرما کر حضور نے دستِ مبارک دعا کے لیے بلند کیے جو رعشہ کے سبب کانپ رہے تھے، دیر تک آواز سے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے رہے

''خداوندا ! یہ بے وارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں ، یہ محلوں کے رہنے والے جنگل ویرانوں میں جاتے ہیں، دنیا میں ان کا کوئی یار و مددگار نہیں رہا۔ تیمور کے نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو پروردگار ! یہی نہیں بلکہ ہندستان کے سب ہندو مسلمان میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت چھائی ہے، میرے اعمال کی شامت سے ان کو رُسوا نہ کر اور سب کو پریشانیوں سے نجات دے''۔

اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھا، زینت کو پیار کیا اور میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواہرات عنایت کر کے نور محل صاحبہ کو ہمراہ کر دیا جو حضور کی بیگم تھیں۔

پچھلی رات کو ہمارا قافلہ قلعہ سے نکلا، جس میں دو مرد اور تین عورتیں تھیں۔ مردوں میں ایک میرے خاوند مرزا ضیاء الدین اور دوسرے مرزا عمر سلطان ،جس وقت ہم لوگ رتھ میں سوار ہونے لگے صبح صادق کا وقت تھا، تارے سب چھپ گئے تھے، مگر فجر کا تارا جھلملا رہا تھا، ہم نے اپنے بھرے پرے گھر پر اور سلطانی محلوں پر آخری نظر ڈالی تو دل بھر آیا اور آنسو اُمنڈنے لگے۔ نواب نور محل کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں۔ صبح کے ستارے کا جھلملانا نور محل کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔

آخر لال قلعہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو کر کورالی گاؤں میں پہنچے اور وہاں اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ باجرے کی روٹی اور چھاچھ کھانے کو میسر آئی، اس وقت بھوک میں یہ چیزیں بریانی، متنجن سے زیادہ مزیدار معلوم ہوئیں۔ ایک دن رات تو امن سے بسر ہوا مگر دوسرے دن گرد و نواح کے جاٹ گوجر جمع ہو کر کورالی کو لوٹنے چڑھ آئے۔ سیکڑوں عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو چڑیوں کی طرح ہم لوگوں کو چمٹ گئیں۔ تمام زیور اور کپڑے ان لوگوں نے اُتار لیے۔ جس وقت یہ سڑی بسی عورتیں اپنے موٹے موٹے میلے ہاتھوں سے ہمارے گلے کو نوچتی تھیں تو ان کے لہنگوں کی ایسی بو آتی تھی کہ دم گھٹنے لگتا تھا

اس لوٹ مار کے بعد ہمارے پاس اتنا بھی باقی نہیں رہا جو ایک وقت کی روٹی کو کافی ہو سکتا تھا۔ حیران تھے کہ دیکھیے اب اور کیا واقعہ پیش آئے گا۔ زینت پیاس کے مارے رو رہی تھی، سامنے سے ایک زمیندار نکلا، میں نے بے اختیار ہو کر آواز دی بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا ''آج سے تو میری بہن اور میں تیرا بھائی''۔ یہ زمیندار کورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا، اس کا نام بستی تھا، اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کر کے ہم کو سوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔ ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میر فیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں، جن سے ہمارے خاندان کے خاص مراسم ہیں، وہاں لے چل۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا، مگر میر فیض علی نے ایسی بے مروتی کا برتاؤ کیا، جس کی کوئی حد نہیں، صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کہ میں تم لوگوں کو ٹھہرا کر اپنے گھر بار تباہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ وقت بڑا مایوسی کا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہو گی، اس پر بے سر و سامانی کا یہ عالم کہ ہر شخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی جو لوگ ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہر وقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو کچھ حکم دیں فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بے زار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ اس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نبہایا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔ 

لاچار اجاڑہ سے روانہ ہو کر حیدر آباد کا رُخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پہنچے، جہاں کومل کے نواب کی فوج کا پڑاؤ تھا، انھوں نے جو سنا کہ ہم شاہی خاندان کے ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کر کے ندی سے پار اُتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اُترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آ گئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہو کر لڑیں، مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جایئے، ہم جیسا ہو گا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے، جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔ ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا یا ناگہانی طور پر گولی لگی۔ جو کچھ بھی ہوا ایک گولی کھیت میں آئی، جس سے آگ بھڑک اُٹھی اور کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر بھاگے۔ پر ہائے ! کیسی مصیبت تھی ہم کو بھاگنا بھی نہ آتا تھا، گھاس میں اُلجھ اُلجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں، برہنہ سر حواس باختہ ہزار دِقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نواب نور محل کے پاؤں خونم خون ہو گئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔ زینت پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے، مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔نواب نور محل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ میں زینت کو سینےسے لگائے اپنے خاوندکا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں، کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔ قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہو گئی لیکن فقیروں کو چین و اطمینان ہوتا ہے، یہاں وہ بھی نصیب نہیں۔

فوج لڑتی ہوئی دُور نکل گئی تھی۔ بستی، ندی سے پانی لایا ہم نے پیا اور نواب نور محل کے چہرے پر چھڑکا۔ نور محل رونے لگیں اور بولیں ابھی خواب میں تمھارے بابا حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''آج ہم غریبوں کے لیے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نور محل گھبرانا نہیں ہمت سے کام لینا۔ تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں، ذرا میری کلثوم کو دکھا دو، جیل خانے جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا''۔ بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہو گا، کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے ان سےکہا، کہ خواب و خیال ہے، بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے، تم گھبراؤ نہیں وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ حافظ سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں گےخود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نور محل تم نے تو طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے، میں کہتی ہوں کہ بنئے بقالوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دُور نہیں ہے، مگر میرے شوہر مرزا ضیاء الدین نے تسکین دلاسے کی باتیں کر کے سب کو مطمئن کر دیا۔ اتنے میں بستی ناؤ میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دُور جا کر شام ہو گئی اور ہماری گاڑی ایک گاؤں میں جا کر ٹھہری جس میں مسلمان راجپوتوں کی آبادی تھی۔ گاؤں کے نمبردار نے ایک چھپر ہمارے واسطے خالی کرا دیا جس میں سوکھی گھاس اور پھوس کا بچھونا تھا۔ وہ لوگ اسی گھاس پر جس کو پیال یا پرال کہتے تھے، سوتے تھے۔ ہم کو بھی بڑی خاطر داری سے (جو ان کے خیال میں بڑی خاطر تھی) یہ نرم بچھونا دیا گیا۔ میرا تو اس کوڑھے سے جی اُلجھنے لگا۔ پر کیا کرتے اس وقت سوائے اس کے کیا ہو سکتا تھا، ناچار اسی میں پڑے رہے۔ دن بھر کی تکلیف اور تکان کے بعد اطمینان اور بے فکری میسر آئی تھی، نیند ا ٓگئی۔ آدھی رات کو چانک ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔ گھاس کے تنکے سوئیوں کی طرح بدن میں چبھ رہے تھے اور پسو جگہ جگہ کاٹ رہے تھے۔ اس وقت کی بے کلی بھی خدا کی پناہ، پسوؤں نے تمام بدن میں آگ لگا دی تھی۔ مخملی تکیوں، ریشمی نرم نرم بچھونوں کی عادت تھی اس لیے تکلیف ہوئی ورنہ ہم ہی جیسے وہ گاؤں کے آدمی بھی تھے، جو اسی گھاس پر پڑے سوتے تھے۔ اندھیری رات میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور میرا دل سہما جاتا تھا۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بال بچے یوں خاک پر بسیرے لیتے پھریں گے۔ 

قصہ مختصر اسی طرح منزل بہ منزل تقدیر کی گردشوں کا تماشا دیکھتے ہوئے حیدر آباد پہنچے اور سیتا رام پیٹھ میں ایک مکان کرایہ کا لے کر ٹہرے۔ جبل پور میں میرے شوہر نے ایک جڑاؤ انگوٹھی جو لوٹ کھسوٹ سے بچ گئی تھی، فروخت کی، اسی میں راستہ کا خرچ چلا اور چند روز یہاں بھی بسر ہوئے، جو کچھ تھا ختم ہو گیا، اب فکر ہوئی کہ پیٹ بھرنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔ میرے شوہر اعلیٰ درجہ کے خوش نویس تھے، انھوں نے درود شریف خط ریحان میں لکھا اور چار مینار پر ہدیہ کرنے لے گئے۔ اس کے بعد یہ قاعدہ ہوا کہ جو کچھ لکھتے کمتی بڑھتی فوراً بک جاتا۔ اس طرح ہماری گزر اوقات عمدگی سے ہونے لگی۔ لیکن موسیٰ ندی کے چڑھاؤ سے ڈر کر شہر میں داروغہ احمد کے مکان میں اُٹھ آئے۔ یہ شخص حضور نظام کا خاص ملازم تھا، اس کے بہت سے مکان کرایہ پر چلتے تھے۔ چند روز بعد خبر اُڑی کہ نواب لشکر جنگ، جس نے شہزادوں کو اپنے پاس پناہ دی تھی، انگریزوں کے عتاب میں آ گیا ہے اور اب کوئی شخص دہلی کے شہزادوں کو پناہ نہیں دے گا، بلکہ جس کسی شہزادے کی خبر ملے گی اس کو گرفتار کرانے کی کوشش کرے گا۔ ہم سب اس خبر سے گھبرا گئے اور میں نے اپنے شوہر کو باہر نکلنے سے روک دیا کہ کہیں کوئی دشمن پکڑوا نہ دے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے فاقوں کی نوبت آ گئی تو ناچار ایک نواب کے لڑکے کو قرآن پڑھانے کی نوکری میرے شوہر نے بارہ روپیہ ماہوار پر کر لی۔ چپ چاپ اس کے گھر چلے جاتے اور پڑھا کر آ جاتے، مگر وہ نواب اس قدر بدمزاج تھا کہ ہمیشہ معمولی نوکروں کی طرح میرے شوہر کے ساتھ برتاؤ کرتا تھا، جس کی برداشت وہ نہ کر سکتے تھے اور گھر میں ا ٓکر رو رو کر دعا مانگتے کہ الٰہی اس ذات کی نوکری سے تو موت لاکھ درجہ بڑھ کر ہے، تو نے اتنا محتاج بنا دیا، کل تو اس نواب جیسےسیکڑوں ہمارے غلام تھے اور آج ہم اس کے غلام ہیں۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو ہماری خبر دی۔ میاں کی حیدر آباد میں بڑی عزت تھی، کیونکہ میاں حضرت کلے میاں صاحب چشتی نظامی فخری کے صاحبزادے تھے، جن کو بادشاہ دہلی اور نظام اپنا پیر تصور کرتے تھے۔ میاں رات کے وقت میانہ میں سوار ہو کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم کو دیکھ کر بہت روئے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ قلعہ میں تشریف لاتے تھے تو مسند زرنگار پر بٹھائے جاتے تھے۔ آج وہ گھر آئے تو ثابوت بوری بھی نہ تھی، جس پر وہ آرام سے بیٹھ جاتے۔ پچھلا زمانہ آنکھوں میں پھرنے لگا۔ خدا کی شان، کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ میاں بہت دیر تک حالات دریافت فرماتے رہے۔ اس کے بعد تشریف لے گئے۔ صبح کو پیام آیا کہ ہم نے خرچ کا انتظام کروا دیا ہے، اب تم حج کا ارادہ کر لو۔ یہ سن کر جی باغ باغ ہو گیا اور مکہ مکرمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ 

القصہ حیدر آباد سے روانہ ہو کر بمبئی آئے اور یہاں اپنے سچے رفیق، بستی کو خرچ دے کر اس کے گھر رخصت کر دیا۔ جہاز میں سوار ہوئے، جو مسافر یہ سنتا تھا کہ یہ شاہِ ہند کے گھرانے کے ہیں تو ہمارے دیکھنے کا شوق ظاہر کرتا تھا، اس وقت ہم سب درویشانہ رنگین لباس میں تھے۔ ایک ہندو نے، جس کی شاید عدن میں دکان تھی اور جو ہمارے حال سے بے خبر تھا، پوچھا کہ تم لوگ کس پنتھ کے فقیر ہو، اس کے سوال نے زخمی دل کو چھیڑ دیا، میں بولی: ''ہم مظلوم شاہ گرو کے چیلے ہیں، وہی ہمارا باپ تھا وہی ہمارا گرو۔ پاپی لوگوں نے اس کا گھر بار چھین لیا اور ہم کو اس سے جدا کر کے جنگلوں میں نکال دیا، اب وہ ہماری صورت کو ترستا ہے اور ہم اس کے درشنوں بغیر بے چین ہیں''۔ اس سے زیادہ اور کیا اپنی فقیری کی حالت بیان کریں۔ جب اس نے ہماری اصلی کیفیت لوگوں سے سنی تو بے چارہ رونے لگا اور بولا '' بہادرشاہ ہم سب کا باپ اور گرو تھا۔ کیا کریں رام جی کی یہی مرضی تھی کہ وہ بے گناہ برباد ہو گیا۔ مکہ پہنچے تو اللہ میاں نے ٹھہرنے کا ایک عجیب ٹھکانہ پیدا کر دیا۔ عبدالقادر نامی میرا ایک غلام تھا، جس کو میں نے آزاد کر کے مکہ بھیج دیا تھا، یہاں آ کر اس نے بڑی دولت کمائی اور زمزم کا داروغہ ہو گیا، اس کو جو ہمارے آنے کی خبر ملی، دوڑا ہوا آیا اور قدموں پر گر کر خوب رویا، اس کا مکان بہت اچھا اور آرام دہ تھا، ہم سب وہیں ٹھہرے۔چند روز کے بعد سلطان روم کے نائب کو جو مکہ میں رہتا تھا، ہماری خبر ہوئی تو وہ بھی ہم سے ملنے آیا۔ کسی نے اس سے کہا تھا کہ شاہِ دہلی کی لڑکی آئی ہے جو بے حجابانہ باتیں کرتی ہے۔ نائب سلطان نے عبدالقادر کے ذریعے سے ملاقات کا پیام دیا جو میں نے منظور کیا۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر پر آیا اور نہایت ادب قاعدہ سے بات چیت کی۔ آخر میں اس نے خواہش کی کہ میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب بہت بے پروائی سے دیا کہ، اب ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آ گئے ہیں، اب ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پروا نہیں ہے۔ نائب نے ایک معقول رقم ہمارے اخراجات کے لیے مقرر کر دی اور ہم نو برس وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف، ایک سال نجف اشرف و کربلائے معلی میں بسر ہوا۔ اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہو کر دہلی آ گئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کر دس روپیہ ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ اس پنشن کی رقم کا سن کر اوّل تو مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپیہ معاوضہ دیتے ہیں، مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے ،جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔

بیگمات کے آنسو(بنت بہادر شاہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : خواجہ حسن نظامی

چیونٹی

آپ نے کبھی چیونٹی کے سامنے انگلی رکھی ہے؟ تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ فورا راستہ بدل لیتی ہے، وہ یہ نہیں سوچتی کہ میرے سامنے کتنی بڑی چیز ہے اب میں کیا کروں گی، میرا کیا بنے گا؟ مجھے کہاں راستہ ملے گا، وہ سر پکڑ کر بیٹھ نہیں جاتی بلکہ وہ اگلے قدم اٹھاتی ہے اور بغیر الجھے اپنا الگ راستہ بنالیتی ہے۔۔
یہ ایک چھوٹی سی چیونٹی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان عقل کے ہونے کے جب اس کے سامنے ایک راستہ بند ہوتا ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے ، اب میرا کیا ہوگا؟ میرا تو کوئی اپنا نہیں ہے؟ 
چیونٹی کی طرح راستہ کیوں نہیں بدلتا؟

اچھے رویہ کی طاقت


ایک عورت نے اپنی والدہ سے اپنے شوہر کے بد مزاجی کی شکایت کی اور شوہر کی بد مزاجی دور کرنے کے لئے کوئی طریقہ پوچھا ؟
والدہ نے بیٹی سے ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے پاس تمہارے اس مسئلہ کےحل کیلئے ایک تعویذ ہے لیکن اس تعویذ میں شیر کی گردن کا بال بند کرنا ضروری ہے مگر شرط یہ ہے کہ بال تم نے خود اپنے ہاتھ سے شیر کی گردن سے توڑنا ہوگا ۔
وہ عورت پہلے تو پریشان ہوئی لیکن شوہر کی بد مزاجی دور کرنے کیلئے اس نے شیر کے بارے معلومات حاصل کرنا شروع کی تو اسے یہ معلوم ہوا کہ شیر کبھی بلاوجہ کسی پر حملہ نہیں کرتا شیر جب بھوکا ہو یا اسے خطرہ محسوس ہو تو تب حملہ کرتا ہے ۔
اب اس عورت نے جنگل جاکر شیر کیلئے گوشت رکھنا شروع کیا پہلے چند دن شیر سے دور دور رہ کر اسے خوراک دی پھر آہستہ آہستہ قریب آنے لگی ایک دو ماہ کی محنت کے بعد یہ شیر کے قریب آگئی شیر پر ہاتھ پھیرنے لگی شیر بھی اس سے مانوس ہوگیا پھر ایک دن اس نے شیر کی گردن سے ایک نہیں بلکہ کئی بال توڑ لیے اور ان بالوں کو لے کر اپنی والدہ کے پاس آئی اور اپنی والدہ سے کہا کہ وہ اب اسے تعویذ بناکر دے-
اس کی والدہ مسکرائی اور کہا کہ میری بیٹی دیکھ شیر جیسے درندے سے اگر اچھا رویہ رکھا جائے اس سے پیار کیا جائے تو وہ درندہ بھی اپنی درندگی چھوڑ کر محبت سے پیش آتا ہے ۔ تیرا شوہر تو انسان ہے تو اس سے اچھا رویہ رکھ اسکا خیال رکھ دیکھنا اس کا مزاج بھی درست ہوجائے گا۔  
جزاک اللہ خیر

خیال

تین سال کا بچہ اگر یہ خواہش کرے کہ اس نے 10 کلو کا وزن اٹھانا ہے،جبکہ اسکی اہلیت 2 کلو اٹھنے سے زیادہ نا ہو تو وہیں خواہش اسکو مشکل میں ڈال دیے گی۔
"دعا یہ ہونی چائیے کہ اللہ ہمیں سب چیزیں اپنے وقت پے دیے ورنہ وقت سے پہلے ملی ہوہی چیز ہمارے لیے کہیں عذاب نہ بن جائے۔۔۔!"

انسان کا گمان اور اس کا مستقبل

سوال

 شاہ صاحب !چند سال پہلے شاہ ایک کتاب آئی جس کا نام دی سیکرٹ (The secret) تھا جس کی مصنفہ روانڈا بائر ن ہے۔ اس کتاب میں (law of attraction)کشش کے قانون کی بات کی گئی ہے ۔دنیا میں اس نظریے کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے کیا وہ واقعی قانونِ کشش سے اس کی طرف راغب ہوجاتا ہے؟بعض افراد کے ساتھ برا ہی ہو تا چلاجاتا ہے اور بعض افراد قسمت کے دھنی ہو تے ہیں ؟کیا انسان کے گمان میں کیا اتنی طا قت ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو اس کی بدولت بہتر بناسکے؟
سرفراز شاہ صاحب 
 جی ہا ں یقینی طور پروہ طاقت موجود ہے۔دُعا کو ہمارے دین میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کو عبادت کا مغز کہا گیا۔ غیر مسلم اس پر تحقیق کرتے رہےاور بالآخرانہوں نے ایک تھیوری بنا لی کہ دعا کیسےپوری کیسے ہے تو ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے اِردگرد ایک مادہ پھیلا ہو ا ہے جب ہم ایک ہی چیز بار بار کہتے ہیں اور سوچتے ہیں تو ہمارے جسم سے نکلنے والی وائبریشن ہمارے ارگرد کے پھیلے ہو ئے ماحول کو وہی شکل دے دیتی ہے تو یوں ہم کہتے ہیں کہ دعا قبول ہو گئی ہے اور سائنس اسی بات کی توجیہ پیش کر رہی ہے ۔یہ جو آپ لا آف اٹریکشن کی بات کر رہے ہیں اگر ہم مذہب سے باہر نکل کر اس کی بات کریں تو بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر انسا ن چاہے وہ نیک ہو یا گنا ہ گا ر  سب کے جسم میں ایک کرنٹ ہے جو کہ ( static charge)کہلاتا ہے وہ عام طور پر 3.5والٹ سے 5والٹ تک ہو تا ہے جس قدر ہماری توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور مثبت سوچ بہتر ہو گی اس قدر انسان کی وولٹیج بہتر ہو گی اور اس کے ذریعے سے ہماری جسم میں ایک میگنیٹ فیلڈ تشکیل پاتا ہے جس کو(Aura) کہتے ہیں ۔اس کی لہریں ہر وقت نکلتی رہتی ہیں اور وہ اِردگرد کی چیزوں پر اثر انداز ہو تی ہیں جیسی وہ لہریں ہوں گی ویسے ہی اس کے اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ "اپنی سوچ مثبت رکھیں تو آپ کامیاب ہو جائیں گے "یہ زندگی گزارنے کا سنہرا اصول ہے کہ اگر میری سوچ مثبت ہے حتی کہ منفی چیزوں کو بھی مثبت انداز میں دیکھتا ہوں مثال کے طور پر ایک آدمی آیا اور وہ مجھے بٹور کر چلا گیا اب اس پر دوطرح کی سوچ ہو سکتی ہے کہ میں فورا اس کے بارے میں برے الفاظ کہہ دوں یا پھر میں زور سے قہقہہ لگاؤں اور کہوں کہ کیا سمارٹ آدمی تھا ،کس طرح مجھے بے وقوف بنا گیا ۔اس سے میرے اندر منفی سوچ پیدا نہیں ہو تی بلکہ مثبت شوچ پیدا ہوگی اور اس کا اثر دوسرے لوگوں پر ہو گا ۔وہ میرے لیے کشش محسوس کریں گے کہ وہ میرے پاس آئیں اور مجھ سے بات چیت کریں ۔جس آدمی کے لیے آپ کے دل میں محبت یا کشش پیدا ہو جاتی ہے وہ آدمی آپ کو کام نہ بھی کہے لیکن آپ جانتے ہوں کہ ا اس آدمی کا یہ کام اٹکا ہو ا ہے توآپ خاموشی سے وہ کردیں گے ۔لا ءآف اٹریکشن کی بنیا د اس بات پر ہے کہ آپ کتنے مثبت رہتے ہیں اور اب ہم اس سائنس کو دین کی طرف لے کرجاتے ہیں ۔میں قرآن کی آیت کا مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ رب تعالی نے حضرت محمد ﷺکومخاطب کرتے ہو ئے فرمایا کہ آپ نرم مزاج ہیں اس لیے لوگ آپ کی طرف آتے ہیں اگر آپ سخت مزاج ہو تے تو لوگ آپ سے دور بھاگ جاتے ۔
تا ریخ ہمیں بتا تی ہے کہ مسلم یا غیر مسلم ایک بات پر متفق ہیں کہ آپ ﷺکے اندربے پناہ کشش موجود تھی ۔آپ ﷺ کی شخصیت کے تمام اوصاف دیکھ لیں وہ سب مثبت ہیں ۔اگر آپ دین اور دنیا میں کامیابی چاہتے ہیں تو بہت آسان سا نسخہ ہے کہ سیرت نبوی ﷺکی پیروی کر لیں ۔آپ بہترین کامیاب آدمی ہوں گے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ سیرت نبوی ﷺکی پیروی کرتے ہیں تو آپ بہت مثبت انسان بن جاتے ہیں ۔آپ کا دشمن بھی آپ سے بھلائی کی توقع کرتا ہے اور یوں آپ چھا جاتے ہیں ۔

اوناسس کی کہانی


*اوناسس* ایک یونانی تاجر تھا
دنیا کی سب سے بڑی جہاز رانی کمپنی کا مالک تھا. 
زیتون کا کاروبار کرتا تھا.. 
اسے دنیا کے امیرترین شخص کا اعزاز حاصل تھا. 
اسکو ایک عجیب بیماری لگی تھی جس کی وجہ سے اسکے اعصاب جواب دے گۓ تھے...
یہاں تک کہ آنکھوں کی پلکیں بھی خود نہیں اٹھا سکتے تھے
ڈاکٹر آنکھیں کھولنے کے لیے پلکوں پر سولیشن لگا کر اوپر چپکا دیتے تھے..
رات کو جب آرم کرتےتو سولیشن اتار دیتے..
تو پلکیں خودبخود نیچے گرجاتی صبح پھر سولیشن لگا دیتے، ایک دن اس سے سب سے بڑی خواھش پوچھی گئی تو کہا کہ
"صرف ایک بار اپنی پلکیں خود اٹھا سکوں چاھے اس پر میری ساری دولت ھی کیوں نہ خرچ آجاۓ"، اللہ اکبر. صرف ایک بار پلکیں خود اٹھانے کی قیمت دنیا کا امیر ترین شخص اپنی ساری دولت دیتا ہے؟ ھم مفت میں ان گنت بار پلکیں خود اٹھا سکتے ھیں...
دل ایک خود کار مشین کی طرح بغیر کسی چارجز کے دن میں
ایک لاکھ 3 ھزار 680 مرتبہ دھڑکتا ہے...
آنکھیں 1کروڑ 10لاکھ رنگ دیکھ سکتی ھیں...
زبان، کان، ناک، ھونٹ، دانت، ھاتھ، پاؤں، جگر، معدہ، دماغ، پھیپھڑے پورے جسم کے اعضاء آٹومیٹک کام کرتے ھیں
ایسے کریم رب کی ھر نعمت کا شکر کرنا اور اسکو راضی کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.
میرے عزیز محترم آج ھمارے پاس وقت ھے ھم اللہ کریم کا ذکر ، شکر ادا کرلے اور اس کی مخلوق کی بے لوث خدمت کرلے 
بعد میں عمر بھر قبر میں پچھتاوا ھی پچھتاوا ھے عنیمت جانو اک اک پل کو 
اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق بخشے 
آمین ثمہ آمین ۔۔

مایوسی کیا ہے


مایوسی پتا ہے کیا ہے۔۔؟؟ 
یہ سوچ لینا کہ کچھ نہیں ہونا 
میرا وقت یہی رہے گا 
میری سوچیں نہیں بدلیں گی 
میں یوں ہی رہ جاؤں گی/گا.. 
یہی وہ صبر کی دوڑ ہے 
جو اپنے رب عزوجل پے یقین کرنا سیکھاتی ہے 
اور 
صبر سے کام لیں 
اور 
یقین رکھیں کہ 
سب ٹھیک ہو جائے گا 
اور 
سب ٹھیک ہے 
یہ سوچیں سب وقتی ہیں 
سب ختم ہو جائے گا ایک دن۔۔ 
یہ یقین رکھیں کہ 
آگے ایک نیا سفر آپ کا منتظر ہے، 
آگے خوشیاں منتظر ہیں آپ کی۔۔ 
اور وہ جو *رب العزت* ہے ہر چیز پر قادر ہے۔۔ 
اپنے بندوں کو کبھی رسوا نہیں کرتا 
کبھی نا اُمید نہیں کرتا 
کبھی مایوس نہیں کرتا۔۔ 
صبر مانگتا ہے وہ بس ہم سے...

اچھے الفاظ



" اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے. الفاظ ہی کے دم سے انسان کوجانوروں سے ممتاز بنایا گیا ہے. الفاظ ہمارا کردار ہیں الفاظ ہمارا ماحول ہیں اور کبھی کبھی تو الفاظ ہماری عاقبت ہیں. الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق ایک نعمت ہے اور یہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے. الفاظ امانت ہیں. الفاظ طاقت ہیں. انہیں ضائع نہ کیا جائے. انہیں رائیگاں نہ ہونے دیا جائے"
(فیضِ واصف رح)

رب کے ہاں معاملہ



اپنی وجہ سے کسی کو یہ کہنے کی نوبت نہ آنے دیجئے گا کہ...!

_*"وَاُفَوّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہ"*_
_*" میں اپنا مقدمہ اللہ کے ہاں پیش کرتا ہوں"*_

یاد رکھیے...!

کسی کے یہ کہنے سے پہلے معاملہ سُلجھا لیجئے گا کیونکہ اُس رَب کے ہاں نہ جج بِکتے ہیں نہ ہی گواہ خریدے جا سکتے ہیں اور نہ ہی وکیل...!

کیونکہ وہ خُود ہی گواہ ، خُود ہی وکیل اور خُود ہی جج ہے...!

اُس کے فیصلے پھر ٹلتے نہیں اور وہاں ترازُو بھی انصاف کے تُلتے ہیں...!

اور اللّٰہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے...!

کامیاب زندگی کے ہنر

امی میں بھی چلوں آپ کے ساتھ
کیوں ابھی تو تمھارے سر درد تھا
اب نہیں ہے میں نے ہنس کے کہا 
بہت ڈرامہ کرتی ہو
چلو میں خوش ہو گئ آنٹی نوری کے گھر مجھے جانا بہت اچھا لگتا تھا بچپن سے میں ان کے گھر جارہی تھی آنٹی کی سب سے اچھی بات یہ تھی کے وہ بہت ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں اور سب سے بڑھ کے مہمان نواز ان کے گھر جب جاؤ مزے مزے کی چیزیں کھلاتی تھیں
کوئ غریب ہو یا امیر کسی میں کوئ فرق نہیں کرتی تھیں
میری تو رول ماڈل تھیں کبھی کوئ گلاِ شکوہ شکایت ان کے منہ سے نہیں سنا تھا 
ھم آنٹی نوری کے گھر گۓ  ان کی نوکرانی آئ اس نے وہیں سے آواز لگائ مہمان آۓ ہیں باجی
آنٹی  اٹھ کے آئیں 
بسم اللہ بسم اللہ وہ ہمیشہ ایسے استقبال کرتی تھیں وہ ھم کو لے کر لاؤنج میں آگئیں وہاں دسترخوان لگا تھا نوکرانی پانی لائ آنٹی  نے کہا آئیں کھانا کھائیں
امی نے ایسی کہا۔ آپ کھائیں ھم کھا کر آۓ ہیں
آنٹی نے اصرار کیا آجائیں ان کی نوکرانی اور وہ ایک ہی دسترخوان پہ بیٹھے تھے آنٹی نے کہا میں روٹی ڈال کے لاتی ہوں 
نوکرانی نے کہا باجی آپ بیٹھیں میں بنالیتی ہوں انھوں نے کہا نہیں تم کھا لو تم نے شروع کردیا تھا وہ کچن میں چلی گئیں میں بھی ان کے پیچھے گئ 
بیٹا آپ اندر چلی جاؤ گرمی ہے آج بہت ! 
میں نے کہا نہیں آنٹی میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوں  آنٹی جلدی جلدی روٹیاں بنانے کی تیاری کر رہیں تھیں  پھر  انھوں نے روٹی توے پہ ڈالی اور فریج سے کباب نکال کے فرائ کے لیےرکھےمیں نے آنٹی سے کہا آنٹی آپ کیسے لوگوں کی مہمان نوازی کرتی ہیں  ھمارے گھر تو اگر مہینے میں دو بھی مہمان آجائیں تو امی بہت تنگ ہوجاتی ہیں اور ھمارا بجٹ بھی آؤٹ ہوجاتا ہے!
 انکل پاپا کے ساتھ ہی آفس میں ہوتے ہیں اور دونوں کی انکم بھی ایک ہے؟
آنٹی زیر لب مسکرائیں
پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں بیٹا میں نے اپنی ماں سے سیکھا ہے آج میں تم کو کامیاب زندگی کے کچھ ہنر بتاتی ہوں آج تم بھی سیکھ لو تمہارے کام آئے گا
میری جب سے شادی ہوئ ہے یہ میرا معمول ہے میں اپنے شوہر کی تنخواہ سے سب سے پہلے دو پرسنٹ اللہ نام کے نکالتی ہوں پھر گھر کا خرچ الگ کر کے رکھ دیتی ہوں
مہمان اللہ کی رضا سے آتے ہیں میں نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ جب اللہ خوش ہوتا مہمان کی صورت میں رحمت بھیجتا ہے
میں یہاں اپنے رب سے ایک تجارت کرتی ہوں  مہمان کی خاطر مدارت کر کے اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لیتی ہوں اس سے میرے دسترخوان کی برکت اور بڑھ جاتی ہے
کسی کی کبھی دل آزاری نہ کرنا کبھی کسی میں فرق نہ کرنادلجوئ کیا کرو کیوں کے دل میں سوہنا رب بستا ہے دل کی حفاظت کرو جب بھی زبان کھولو بول میٹھے بولو تاکہ تم دل میں بس جاؤتمہارا بول  تم کو اسکے دل میں بسا دے گا اور جو دل میں ہوتے ہیں وہ دعا میں شامل ہوجاتے ہیں
اور جب دعا لگتی ہے تو عزت والا رب سن لیتاہے
اوروہ عطائیں کرتا ہے جس کا تصور بھی ناممکن ہے
زندگی کو آسان بناؤ
آنٹی کے کباب بھی فرائ ہوگۓ اور روٹیاں بھی پک  گئ
آنٹی نے مجھے کہا فریج سے آم نکال لو
دو ہی آم رکھے تھے میں نے آنٹی کو کہا آم رہنے دیں   آنٹی نے کہا نکال لو زاہد صاحب کے باغ کے ہیں بہت ہی لذیذہیں
ھمارے ہاں بھی بھیجے تھے ھم نے کھاۓ ہیں
تو نکالو نا بیٹا مل کے کھاتے ہیں آنٹی نے کہا 
میں  نے شرماتے ہوۓ کہا دو ہی رکھیں ہیں آپ اور انکل کھا لیجیےگا آنٹی نے کہا بیٹا اور آجائیں گے
میں نے دل میں سوچا اتنی مشکل سے زاہد  انکل ایک ایک پیٹھی اپنے سب دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں اب تو اگلے سال ہی آئیں گےآنٹی نے آم نکال کے کاٹ لیے
ھم دسترخوان پہ آگۓ
آنٹی کے ہاتھ میں ایک الگ ہی ذائقہ تھا
ھم نے آنٹی کے مزیدار کھانے کا لطف اٹھایا
نوکرانی امی کے ساتھ باتوں میں لگی تھیں پھر وہ اٹھنے لگی تو آنٹی نے کہا آم تو کھالو نجمہ اور دو موٹی پھانکیں پلیٹ میں رکھ کے دیں
امی سے وہ باتیں  کر رہیں تھیں امی اپنے بہن بھائیوں کے گلے کر رہیں تھیں
آنٹی تحمل سے سن رہی تھیں میں نوٹ کر رہی تھی جہاں امی تلخ ہوتیں وہیں آنٹی امی کی بات کاٹتی اور  کہتی ارے بھابھی کباب تو لیے نہیں آپ نے اور بات کٹ جاتی ارے یہ چٹنی کھا ئیں آج ہی بنائ ہے بیٹا تم تو لو ایسی بیٹھی ہو
امی تو گئ ہی تھیں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیسے خاموش ہوتیں
بات پھر شروع کردی اور یوں کھانا کھایا آم کھاۓ دوآم سے ہم چار لوگوں نے آم کھاۓ پھر بھی ایک پھا نک بج گئ میں نے دیکھا آنٹی نوری نے گھوٹلیاں کھائ تھیں  جس پہ براۓ نام ہی آم تھا
میں نے کہا آپ کھالیں انھوں نے انکار کر دیا امی کوکہا آپ لے لیں پھر مجھے کہا کھالو بیٹا میں نے منع کردیا یہ سوچ کر کہ آنٹی کھالیں گی
انھوں نے اپنی نوکرانی کو آواز دی  اور اس کو کہا کہ یہ کھالو اور برتن اٹھالو
ہم باتوں میں لگ گۓ 
پھر انکل آگۓ ان کی گاڑی کا ہارن سنائ دیا
امی نے کہا لو بھائ صاحب آگۓ باتوں میں پتا ہی نہ چلا
انکل اندر آۓ سلام دعا کی آنٹی نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا خود  کچن میں جاکر پانی لائیں پھر نوکرانی کو چاۓکے لیے کہا انکل نے کہا کہ پہلے گاڑی سے آم کی پیٹھی اتروالو زاہد نے دی ہے
ایک دوست کے لیے لایا تھا وہ چھٹیوں پہ چلا گیا ہے  مجھے کہا تم لے جاؤ بچوں کے لیے 
میں انکل کی بات سن کے حیران ہوگئ
اس  دن میں نے ایک بات اور سیکھی
"بہترین زندگی جینے کے لیےتوکل اللہ کتنا ضروری ہے"