Wednesday, March 17, 2021

ماں کی دعا

ماں کی دعا کیسے قبول ہوتی ہے؟ 


وہ گاڑی سے اترا اور بڑی تیزی سے ہوائی اڈے کی جانب لپکا؛ جہاز اڑنے کے لئے تیار تھا اور اسے ایک کانفرنس میں شرکت کرنی تھی جو اسی کے اعزاز میں دی جا رہی تھی۔ جلدی جلدی جہاز میں پہنچ کر اپنی مقررہ نشت پر بیٹھا اور ابھی جہاز اڑنے کے بعد کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک اعلان ہوا:
آسمانی بجلی کے کڑکنے ، اور تیز اور طوفانی بارش کی وجہ سے انتظامی آلات میں خلل واقع ہو گیا ہے، لہذا جہاز کو نزدیک ترین ہوائی آڈے پر اتارا جا رہا ہے۔
وہ جہاز سے اترتے ہی ہوائی اڈے کے عملے کے منتظم کے پاس پہنچا اور گویا ہوا:
میں ایک جانا مانا عالمی متخصص
ڈاکٹر ہوں، میرے لیے میرا ایک ایک منٹ انسانوں کی جانوں کے برابر قیمت رکھتا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ میں یہاں
14 گھنٹے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں؟
کارکنوں میں سے ایک بولا:
جناب ڈاکٹر ذیشان صاحب! اگر آپ کو زیادہ جلدی ہے تو ایک گاڑی کرائے پر لے کر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیے ، یہاں سے گاڑی میں وہ مقام تین گھنٹے سے زیادہ دور نہیں۔
اس نے ایک گاڑی کرائے پر لی اور اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہو گیا ، لیکن یہاں بھی قسمت کام نہ آئی، موسلا دھار بارش اور جھکڑ آڑے آئی اور وہ سفر جاری نہ رکھ سکا،
ابھی یہ راہ میں ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے تھے کہ احساس ہوا راستہ گم ہو گیا ہے، ناامیدی کے ساتھ آگے چل ہی رہے تھے کہ اچانک ایک چھوٹے سے گھر پر نظر پڑی، اس طوفان میں غنیمت جان کر نیچے اترا اور جا کر دروازہ بجا دیا۔ آواز آئی: جو کوئی بھی ہے اندر آ جاؤ دروازہ کھلا ہے۔
اندر ایک بڑھیا زمین پر جائےنماز بچھائے بیٹھی تھی ۔
اس نے کہا: ماں جی اجازت ہے میں آپ کا فون استعمال کر لوں؟
بڑھیا مسکرائی اور بولی: بیٹا کون سا فون؟ یہاں تو نہ بجلی ہے نہ فون! لیکن تم بیٹھو، سامنے چائے رکھی ہے پیالی میں ڈال کر پیو تھکن دور ہو جائے گی اور کھانے کو بھی کچھ نہ کچھ رکھا ہو گا ، کھا لو تاکہ آگلے سفر کے لیے بدن میں طاقت آئے۔
ڈاکٹر نے بڑھیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیالی میں چائی ڈالی اور پینے میں مشغول ہو گیا جبکہ کہ بڑھیا نماز و دعا میں مشغول تھی۔ اچانک بجلی کوندی تو ان کی نظر پڑی اس بڑھیا کی جا نماز کی بغل میں ایک بچہ کنبل میں لپٹا پڑا ہے جسے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہلاتی جا رہی ہے۔ جب کافی دیر بعد بڑھیا نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تو ڈاکٹر نے کہا: میں آپ کے اس اخلاق اور لطف و کرم کا نہایت ھی مشکور ہوں، میرے لیے بھی دعا کیجیے ، آپ کے اخلاق حسنہ اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ کی دعا ضرور قبول ہو گی۔
بڑھیا بولی: نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں تم راہگیر ہو اور راہگیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اللہ نے دیا ہے ۔ میں نے تمہارے لیے بھی دعا کی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری ہر دعا سنی ہے، بس ایک دعا کی قبولیت میں شاید ابھی کچھ دیر ھو
. ڈاکٹر نے پوچھا: کون سی دعا؟
بڑھیا بولی: یہ جو بچہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ادھ موا پڑا ہے، میرا پوتا ہے، نہ اس کی ماں زندہ رہی نہ باپ، اس بڑھاپے میں اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں اسے کوئی موزی مرض ہے، جس کا وہ علاج نہیں کر سکتے، کہتے ہیں ایک ہی ڈاکٹر ہے بڑا نامی گرامی،!!!!!!! نام بتایا تھا اس کا۔۔۔! ہاں ذیشان ... وہ اس کا اپریشن کر سکتا ہے۔ لیکن میں بڑھیا کہاں اس تک پہنچ سکتی ہوں ؟ لے کر جاؤ بھی تو پتہ نہیں قبول کرے یا نہ کرے، میری تو خیر ہے یہ بچارہ بچہ خوار ہو جائے گا؛ بس اب اللہ سے ہی امید ہے کہ وہ میری مشکل آسان کر دے...!
ڈاکٹر کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہیں؛ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا: خدا کی قسم، آپ کی دعا نے ہوائی جہاز کو نیچے اتار لیا ، آسمان پر بجلیاں کوندوا دیں، مجھے رستہ بھو لوا دیا تاکہ میں یہاں تک کھینچا چلا آؤں، خدا کی قسم ، مجھے یقین نہیں آتا کہ خدا ایک دعا کو اس طرح قبول کر کے اپنے بندےکے لیے یوں اسباب فراہم کرتا ھے۔

No comments:

Post a Comment