یہ گیارہویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے! اسلام کی سربلندی اور سرفرازی کے لیے سلاطینِ سلجوق دل و جان سے کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں مشہور امام موافق کی درسگاہ نے عالمی شہرت پائی کیونکہ یہاں سے وقت کے عظیم لوگ فارغ التحصیل ہوئے یا یوں کہیے کہ امام موافق کے مدرسے سے فارغ ہونے والے بیشتر لوگوں نے تاریخ میں اپنا نام پیدا کیا۔ اِسی مدرسے میں تین طلباء کی دوستی قابلِ رشک سمجھی جاتی تھی جن کا اُٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سب کچھ ایک ساتھ تھا۔ دو ہم نام تھے ، جن میں ایک کا نام حسن طوسی اور دوسرے کا نام حسن بن صباح تھا ۔تیسرے دوست کا نام عمر تھا۔ عمر ، جو بعد میں عمر خیام کے نام سے مشہور ہوا نے اپنی علمی دھاک ایسی بٹھائی کہ لوگ آج تک اُس کی علمی باتوں کو بطور حوالہ پیش کرتے ہیں۔عمر خیام وقت کا بہترین شاعر اور علم دان بناجس کی تحقیق اور علمی تدبر سے آنے والے زمانے سیراب ہوتے رہے۔حسن طوسی جنہیں تاریخ نظام الملک خواجہ حسن طوسی کے نام سے جانتی ہے، نے اپنے علم و دانش اور تدبر کے باعث سلجوقیہ سلطنت میں جگہ بنائی اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے۔
سلاطین نے ہی اُنہیں نظام الملک کا خطاب دیا تھا اور سلطنت کا کوئی کام اِن کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ان کا بنایا ہوا مدرسہ نظامیہ آج تک اپنی تاریخی حیثیت کے ساتھ موجود ہے جس نے ایک زمانے کی علمی تشنگی کو سیراب کیا ہے۔تیسرا کردار، حسن بن صباح ، جس نے نہ صرف تاریخ میں جگہ بنائی بلکہ اپنے ذہنی اور ابلیسی کمالات کی ایسی داستان رقم کی کہ آنے والی نسلیں بھی اس کا نام سُن کر کانپتی رہیں۔ وہ کردار جو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھا مگر وقت کے بادشاہ بھی اُس پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے تھے، اور جو حکمران اس کے خلاف کاروائی کی کوشش بھی کرتا اُسے بے دردی سے قتل کر دیا جاتاتھا۔حسن بن صباح کی پوری تاریخ تو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے مگر میں آپ کو یہاں چیدہ چیدہ واقعات کے ذریعے اُس کی حقیقت بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
حسن بن صباح شروع میں اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھتا تھا اور ایک زمانے تک اپنے آپ کو سُنی ظاہر کرتا رہا، مگر بعد میں اِس نے اپنے ہی نئے فرقے کی بُنیاد رکھ دی، اور خود کو خدا کا ایلچی اور امام بنا کر مذہبِ اسلام کی بیخ کُنی کرنے لگا۔اس نے تا عمر اپنے آپ کو اہلِ اسلام ظاہر کیا اور اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرتا رہا۔ عملِ تنویم (ہپناٹزم) کا باقاعدہ استعمال سب سے پہلے حسن بن صباح نے ہی کیا تھا، اس سے پہلے یہ علم ایک نامعلوم حیثیت سے موجود تھا۔اس نے مشہور قلعہ المُوت میں اپنی حکومت قائم کی اور یہیں مشہور اور بدنامِ زمانہ جنت تعمیر کی گئی جہاں حسن بن صباح نے 35 برس تک حکمرانی کی اور نوے سال کی عمر میں طبعی موت مرا کیونکہ کسی کو اس کے قلعہ کے قریب آنے کی جرات بھی نہیں ہوئی۔ حسن بن صباح کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اِس کے فدائین تھے جو بعد میں حشیشین کے نام سے بھی مشہور ہوئے کیونکہ وہ حشیش (ایک قسم کی بھنگ) کا نشہ کرتے تھے۔ یہ فدائین تھے کیا؟ اس بات کا اندازہ آپ ان واقعات سے لگا سکتے ہیں۔
جب حسن بن صباح کا فتنہ بہت بڑھ چکا تو سلجوقی سلطان ملک شاہ نے اس کے خلاف لشکر کشی کا فیصلہ کیا۔ لشکرکشی سے پہلے ایک قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ حسن بن صباح خود کو سلطنت کے حوالے کردے اور اپنی منفی سرگرمیاں ختم کردے ورنہ اُس کے قلعہ پر چڑھائی کردی جائیگی۔ ایلچی نے یہ پیغام قلعہ المُوت میں جا کر حسن بن صباح کو سُنایا۔"میں کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتا" حسن بن صباح نے کہا، "اور نظام الملک سے کہنا کہ میں بچپن کی دوستی کے تحت تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں کا رُخ مت کرنا ورنہ تمہاری فوج کا انجام بہت بُرا ہوگا"۔ایلچی یہ پیغام لے کر جانے لگا تو حسن بن صباح نے اُسے روک لیا۔ "ٹھہرو شاید تم میری باتوں کا یقین نہ کرو میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں"۔اس کے بعد حسن بن صباح کے حکم سے کچھ فدائین قطار بنا کر وہاں کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک فدائی کو بُلا کر خنجرپکڑایا اور کہا، "اِسے اپنے سینے میں اُتار لو"۔اُس فدائی نے بلند آواز میں نعرہ لگایا "یا شیخ الجبل تیرے نام پر" اور خنجر اپنے دل میں اُتار لیا۔اس کے بعد ایک دوسرے فدائی کو بلا کر حکم دیا کہ بلندی پر جا کر سر کے بل چھلانگ لگا دو ۔وہ خاموشی سے گیا اور چھت سے چھلانگ لگادی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔
ایسے ہی ایک فدائی کو پانی میں ڈوبنے کو کہا گیا اور اُس نے بخوشی اپنے آپ کو پانی کی تُند و تیز لہروں کے حوالے کردیا۔اس ایلچی نے جا کر یہ تمام واقعات سلطان اور نظام الملک کو گوش گزار کردیے۔نظام الملک خواجہ حسن طوسی یہ سن کر جذبہء ایمانی کے غصے سے لبریز ہوگئے اور سلطان کو فوراً لشکر کشی کا مشورہ دیا جسے سلطان نے قبول کرتے ہوئے اپنے فوجوں کا رُخ قلعہ المُوت کی طرف کرلیا ۔ حسن بن صباح نے یہ سُنا تو زیرِ لب مسکرایا اور کہا، " حسن طوسی کو قتل کردو" بس اتنا ہی کہنا تھا اور خواجہ حسن طوسی کو قتل کردیا گیا، اور عظیم الشان لشکر راستے سے ہی واپس ہولیا۔بعد میں سلطان ملک شاہ کو بھی قتل کر دیا گیا۔قتل کرنے کا طریقہ بڑا سادہ ہوتا تھا۔فدائی مطلوبہ شخصیت تک کسی بھی طریقے سے پہنچتا تھا اور اس کو قتل کر کے ایک بلند نعرہ لگاتا تھا "یا امام الجبل حسن بن صباح! تیرے نام پر تیری جنت سے اللہ کی جنت میں جا رہا ہوں"اور اپنے دل میں خنجر اُتار لیتا تھا۔ایسے ہی حسن بن صباح نے اعلیٰ شخصیات اور وقت کے بہترین علماے کرام کو قتل کروایا۔ حتیٰ کہ اپنے آخر دور میں یہ فدائی باقاعدہ کرائے کے قتل بن گئے اور عیسائیوں کے کہنے پر انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی تین قاتلانہ حملے کیے مگر ایوبی سلامت رہا۔
فدائین کھلے عام دن دہاڑے لوگوں کے سامنے اپنی وارداتیں انجام دیتے تھے۔ اؐن کا ہتھیار ایک زہر آلود خنجر ہوتا تھا۔ کبھی کبھار فدائین قتل کی بجائے دھمکی آمیز خط کسی کے سرہانے چھوڑ دیتے تھے۔جس سے اٌن کا مقصد بغیر قتل کے بھی حاصل ہو جاتا۔ دہشت انگیزی کی یہ تحریک اتنی منظم تھی کہ قرب و جوار کے تمام بادشاہ فدائین کے نام سے تھرتھر کانپتے تھے۔ صلاح الدین ایوبی پر بھی قاتلانہ حملے ہوئے، جن سے وہ ہر بار بچ گیا۔ قتل کی اِن وارداتوں سے بچنے کیلئے صلاح الدین ایوبی نے حسن بن صباح کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
آخر یہ فدائی خود کش حملہ کیسے کر لیتے تھے؟ اس کے لیے پہلے آپ کو حسن صباح کی جنت کا احوال جاننا ہوگا۔ حسن بن صباح نے قلعہ المُوت میں ایک جنت تعمیر کر کھی تھی۔یہاں جنت کے مذکور تمام سامان آراستہ کرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔دودھ، شہد اور صاف پانی کے چشمے بنائے گئے۔جنتی حوروں کی مثل لڑکیاں دُنیا بھر سے اکھٹی کر کے یہاں لائیں گئیں۔جہاں یہ جنت بنائی گئی وہ جگہ ویسے ہی قدرتی حسن سے مالا مال تھی۔ سرسبز و شاداب مناظر کسی بھی شخص کا دل موہ لینے کے لیے کافی تھے۔حسن بن صباح کے فدائین حشیش کے نشے کے زیرِ اثر یہاں لائے جاتے تھے۔یہ ایسا نشہ ہوتا تھا کہ انسان ویسے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگ جاتا اس پر جب اس کو مصنوعی جنت کے نظاروں میں لڑکیوں کی دلفریب ادائوں کی نظر کیا جاتا تو وہ بالکل ہی مدہوش ہو جاتا۔بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔
یہاں جو بھی لایا جاتا وہ کچی عمر میں لایا جاتا تھا۔حشیش کا نشہ ، جنت کے حسین نظاروں اور حوروں کے علاوہ ان پر عملِ تنویم (ہپناٹزم) کیا جاتا تھا جس میں حسن بن صباح نے خاص مہارت حاصل کی تھی۔بارہ سے لے کر سترہ سال تک کے یہ لڑکے جب عمر کی پختگی تک پہنچنے لگتے تو وہ ایسے ہی محسوس کرتے تھے جیسے وہ واقعی جنت میں رہتے ہوں اوراِس کے بغیر ایک لمحہ جینا بھی ان کے لیے محال ہوگا۔اِن سے کہا جاتا کہ فلاں کو قتل کر کے خود کو مار لو گے تو اس سے بڑی اللہ کی جنت میں پہنچ جائو گے۔ان تمام مراحل میں وہ شخص ہمہ وقت ایک خواب کی کیفیت میں رہتا تھاجو حشیش اور ہپناٹزم کا اثر تھا۔وہ شخص جنت کے لیے اس قدر بے چین ہوتا کہ بخوشی اپنی جان حسن بن صباح پر قربان
کردیتاتھا۔
۔ حسن بن صاح نے ایک طویل عمرپائی اور الموت میں ہی اس کی موت واقع ہوئی ۔ اس کی موت کے بعد کیا بزرگ اس کا جانشین بنا جو اس کا بیٹا بتایا جاتا ہے
کہا جاتا ہےکہ چنگیز خان کے پوتے منگول بادشاہ منگو خان پر حملہ کرنےکیلئےبھی ایک فدائی روانہ کیا گیا، جو بد قسمتی سے پکڑا گیا۔ منگو خان کو بہت غصہ آیا اور اس نے حسن بن صباح کو سزا دینے کیلئے اپنے چھوٹے بھائی ہلاکوخان کو روانہ کیا۔ ہلاکو خاں نے ہمیشہ سے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے قلعہ الموت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، حسن بن صباح کے جانشین اور آخری شیخ الجبال رکن الدین خور کو گرفتار کر لیا گیا، اور اٌسے اس کے تمام بچوں اور ہزاروں فدائیوں سمیت بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا۔ مرد تو مرد ہلاکو خان نے عورتوں کو بھی نہیں بخشا، حسن بن صباح کی جنّت کی حوریں بھی قتل کر دی گئیں۔
الموت کے کھنڈرات آج بھی ایران میں موجود ہیں۔
تحریر:نا معلوم
بشکریہ:
No comments:
Post a Comment