Friday, May 7, 2021

والدین کی قدر کریں

 گھر جانے کے لئے  گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے علی حسنین کا پتہ پوچھ رہے تھے. مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.

بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.

سنا ہے وہ اسی اسلام آباد  شہر میں اپنے بچوں کے ہمراہ کچھ سال پہلے آیا تھا.پھر کاغذ میں لپٹی کوئی چیز نکالی . یہ کسی کی تصویر تھی.مگر تصویر میں نظر انے والا شخص بہت کم عمر نظر آ رہا تھا. میں نے پوچھا بابا جی یہ ہیں آپکے بیٹے ؟مگر یہ تو بہت کم عمر نظر آ رہے ہیں. بولے پتر یہ تو آرمی میں ٹیسٹ دینے کے لیئے اس نے تصویر بنائی تھی. اب تو سنا ہے وہ کرنل بن چکا ہے. تو بابا جی آپ سے کوئی رابطہ نہیں اور کب سے ؟ لرزتے ہونٹوں سے بولے بیٹا تاریخ یاد نہیں مگر بہت سال پہلے اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی تب اسکی نوکری نہیں تھی . آرمی میں ٹیسٹ دیا پھر بیوی کو لے کر شہر آگیا تھا۔

پہلے تو ماں زندہ تھی اب وہ بھی نہیں رہی. میں بھی کوئی کام نہیں کر سکتا.بڑی مشکل سے پتہ لگا کہ وہ اس شہر میں رہتا ہے. میں بڑی مشکل سے یہاں آیا ہوں. زندگی کا کیا بھروسہ بس ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں.

مگر بابا جی آپ کب سے اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہے ہیں؟

بولے کئی دن ہو گئے پتر.بس چلتا رہتا ہوں اور پوچھتا رہتا ہوں لوگوں سے.جہاں رات پڑے سڑک کنارے ہی سو جاتا ہوں.

اتنے میں ایک سرد ہوا کا جھونکا میرے جسم کو ٹھٹھرا گیا. بابا جی آپکے پاس کوئی ایڈرس نہیں ایسے کیسے آپکو ؟ابھی لفظ منہ میں ہی تھے بولے تو خیر ہے پتر اپنے بیٹے کے شہر میں موت آئی تو اس سے آگے کیا ہے؟

باپ ہوں نا زندگی میں دیکھنا چاہتا ہوں. حشر میں تو پتر سنا ہے اپنی اپنی پڑی ہوگی...

میں نے تو حشر نہیں دیکھی بابا جی مگر حشر دیکھ رہا ہوں. آنسو میرا چہرہ بھگو رہے تھے. .کہیں اس باپ کی محبت کی قیمت اس شہر کے بیٹوں کو نہ دینی پڑ جاے... ایک دو فون گھمائے اور کرنل علی حسنین کا پتہ چل گیا۔ بابا جی کو اس بدبخت بیٹے کے گھر تک لے کر گیا، بیل بجائی تو بٹ مین باہر آیا، بابا جی نے بتایا کہ وہ کرنل صاحب کے والد ہیں اندر آنا چاہتے ہیں، ملازم نے چونک کر کہا کہ کرنل صاحب تو کہتےہیں انکے والدین کا انتقال ہوچکا ہے، اس پر میں نے زور دیا کہ آپ اندر جا کر بتائیں تو کہ باہر کون آیا ہے۔ ملازم سے بحث زور پکڑنے لگی تو بابا جی نے مداخلت کی، بڑے نرم لہجے میں بولے "سویرے کم تے جان لئی تے ایتھوں ای لنگے گا نا؟" میں نے بابا جی سے کہا یہ کیا بات ہوئی آپ مل تو لیں۔۔۔ بابا جی مڑے، چلتے ہوئے گیٹ کے سامنے سڑک پار درخت کے نیچے جا بیٹھے اور بولے، بس یہی سے دیکھ لیا کروں گا، اکھاں نوں ڈھنڈ ای چائ دی اے نا۔ 

یہ پوسٹ لکھتے ہوئے بھی میری آنکھیں کئی بار نم ہوئی.بس ایک ہی فقرہ زہن میں گونج رہا ہے . باپ ہوں نہ دنیا میں ملنا چاہتا ہوں حشر میں تو پتر اپنی اپنی پڑی ہو گی ۔ 

خدارا قدر کریں اپنے والدین کی۔۔۔


No comments:

Post a Comment