ایک نوجوان لڑکے کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلائے ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے لیکن اپنے بیٹے کے ضد کرنے پر وہ راضی ہوگئے پھر ایک دن اُس نوجوان لڑکے نے شہر کے ایک مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا
اور پھر اپنے والدین کو لےکر اُس ہوٹل میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہاں موجود امیر لوگوں نے سر سے پیر تک اُن تینوں کو یوں عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جیسے وہ غلطی سے وہاں آ گئے ہو کھانا کھانے کیلئے بیٹا اپنے دونوں ماں باپ کے درمیان بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک نوالہ اپنی ضیعفہ ماں کے منہ میں ڈالتا اور دوسرا نوالہ بوڑھے باپ کے منہ میں بوڑھے والد کو ریشے کی بیماری تھی اسی وجہ سے کھانے کے دوران اُن کا چہرہ ہل جاتا اور روٹی اور سالن کے ذرّے والد کے چہرے اور کپڑوں پر گر جاتے۔۔۔۔۔۔۔
والدہ کو دونوں آنکھوں سے کم دکھائی دیتا تھا وہ جیسے ہی ماں کے چہرے کے پاس نوالہ لے جاتا تو نظر کی کمی کے باعث وہ انجانے میں ادھر اُدھر دیکھتی اور پھر اِس طرح اُن کے بھی منہ اور کپڑوں پر کھانے کے داغ پڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔
اِردگرد بیٹھے لوگ جو پہلے ہی انہیں حقیر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ اور بھی منہ چڑانے لگے کہ کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے اور اتنے مہنگے ہوٹل میں آ جاتے ہیں بیٹا اپنے ماں باپ کی بیماری اور مجبوری پر آنکھوں میں آنسو چھپائے چہرے پر مسکراہٹ سجائے اِردگر کے ماحول کو نظرانداز کرتا رہا ایک عبادت سمجھ کر انہیں کھانا کھلاتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد وہ ماں باپ کو بڑی عزت و احترام سے واش بیسن کے پاس لے گیا وہاں اپنے ہاتھوں سے اُن کے چہرے صاف کیے کپڑوں پر پڑے داغ دھوئے اور جب وہ انہیں سہارا دیتے ہوئے باہر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے ہوٹل کے مینجر نے آواز دے کر کہا۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا تم ہم سب کیلئے ایک بہت قیمتی چیز یہاں چھوڑے جا رہے ہو اُس نوجوان لڑکے نے حیرانگی سے پوچھا کیسی چیز؟ مینجر اپنی عینک اُتار کر آنسو پونچھتے ہوئے کہا نوجوان بچوں کیلئے سبق اور بوڑھے ماں باپ کیلئے ایک امید۔
No comments:
Post a Comment